13 اگست ، 2020
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے جعلی پولیس مقابلے میں مارے جانے والے نوجوان نقیب اللہ کے قتل کیس میں استغاثہ کے گواہ کو منحرف قرار دینے کی درخواست مستردکردی۔
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی جس میں مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار، ڈی ایس پی قمراحمد اور دیگر ملزمان پیش ہوئے۔
اس موقع پر عدالت نے استغاثہ کے گواہ پولیس اہلکار جہانگیر شہزاد کو منحرف قرار دینے کی درخواست مسترد کردی۔
گواہ نے عدالت کو بتایا کہ نقیب اللہ قتل کے پولیس مقابلے کا میمو میں نے سابق ایس ایچ او امان اللّہ مروت کے کہنے پر بنایا تھا،میں مقابلے کے بعد میڈیا کی گاڑیوں کو لے کر موقع پر پہنچا اور راؤ انوار کا قافلہ میرے آگے تھا۔
عدالت نے جرح کے بعد استغاثہ کو ہرسماعت پر 5 گواہ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 20 اگست تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل سماعت کے دوران پولیس کی جانب سے پیش کیے گئے دو اہم گواہ اپنے بیان سے منحرف ہوگئے تھے جن میں پولیس اہلکار جہانگیر شہزاد اور رانا آصف نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ان کے سابقہ بیان میں کوئی صداقت نہیں، یہ واقعہ ان کے علم میں ہی نہیں ہے اور ان سے بیان زبردستی لیا گیا تھا۔
مدعی مقدمہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ گواہان نے سابق ایس ایس پی راؤ انوار کے دباؤ میں آکر بیان تبدیل کیا ہے۔
13 جنوری 2018ء کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔
بعد ازاں 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔
تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جب کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔
راؤ انوار نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں خود کو سرنڈر کردیا تھا جس کے بعد انہیں کراچی منتقل کردیا گیا تاہم ڈھائی برس بعد بھی اس کیس کو اب تک حتمی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکاہے ۔