25 مارچ ، 2019
کراچی: انسداد دہشت گردی عدالت نے جعلی پولیس مقابلے میں مارے جانے والے نوجوان نقیب اللہ کے قتل کیس میں راؤ انوار پر فرد جرم عائد کردی۔
کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں کیس میں نامزد مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی راؤ انوار اور دیگر ملزمان عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے نقیب اللہ محسود کے قتل کے مقدمے میں راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد کردی تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کردیا جس پر عدالت نے 11 اپریل کو کیس کے گواہان کو طلب کرلیا۔
جب کہ عدالت نے آئندہ سماعت مدعی مقدمہ اور عینی شاہدین کے بیان ریکارڈ کرنے والے مجسٹریٹ کو بھی طلب کیا ہے۔
واضح رہے کہ اس کیس میں 13 پولیس اہلکار و افسراں عدالتی ریمانڈ پر جیل میں ہیں جب کہ راؤ انوار اور ڈی ایس پی قمر سمیت 5 ملزمان ضمانت پر رہا ہیں، ملزمان پر اغواء قتل سمیت دیگر الزامات ہیں۔
نقیب اللہ قتل کیس کا پسِ منظر
13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔
بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
نقیب اللہ کے والد خان محمد نے واقعے کا مقدمہ درج کرایا تھا جس میں راؤ انوار کو نامزد کیا گیا تھا۔ پولیس کے اعلیٰ افسران پر مشتمل کمیٹی نے معاملے کی تحقیقات کرکے راؤ انوار کے پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیاتھااور نقیب اللہ کو بے گناہ قرار دے کر پولیس افسر کی گرفتاری کی سفارش کی تھی۔
تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا جب کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر از خود نوٹس لیا گیا تھا۔
ملزم راؤ انوار کچھ عرصے تک روپوش رہے تاہم 21 مارچ 2018 کو وہ اچانک سپریم کورٹ میں پیش ہوگئے جہاں عدالت نے انہیں گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔