14 اگست ، 2020
پاکستان نے عمران فاروق قتل کیس میں برطانیہ سے مجرم قرار دیے گئے بانی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم)، ان کے قریبی عزیز افتخار حسین اور محمد انور کی حوالگی کا مطالبہ کردیا۔
حکومت نے برطانوی حکام کو لکھے گئے خط میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ پاکستان کے تعاون کے سبب قاتلوں کو سزائیں ہوئیں، اب برطانیہ تعاون کرتے ہوئے ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچائے۔
خیال رہے کہ اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کا فیصلہ 18 جون کو سنایا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں عمران فاروق قتل کیس میں گرفتار ہونے والے تینوں ملزمان خالد شمیم، محسن علی اور معظم علی کو عمر قید اور مقتول کے ورثاکو 10،10 لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اپنے فیصلے میں کیس میں اشتہاری ملزمان بانی ایم کیو ایم اور ان کے عزیز افتخار حسین سمیت محمد انور اور کاشف کامران کے بھی دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں۔
ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010ء کو برطانیہ میں قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 5 دسمبر 2015ء کو پاکستان میں اس قتل کا مقدمہ درج کیا تھا جس میں تین ملزمان خالد شمیم، محسن علی اور معظم علی کو گرفتار کیا گیا۔
تینوں ملزمان پر 2مئی 2018 کو فرد جرم عائد کی گئی جب کہ 4 ملزمان بانی متحدہ، محمد انور، افتخار حسین اور کاشف کامران کو اشتہاری قرار دیا گیا۔
دوران سماعت استغاثہ کے 29 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے، کیس کے برطانوی چیف انویسٹی گیٹر نے عدالت میں بیان ریکارڈ کرایا جب کہ مقتول کی اہلیہ سمیت دیگر برطانوی گواہوں نے ویڈیو لنک پر بیانات ریکارڈ کرائے جن میں پڑوسی عینی شاہدین، پولیس حکام، فارنزک ایکسپرٹ اور پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر شامل ہیں۔
پاکستانی حکومت کی جانب سے برطانیہ کو دوران ٹرائل جرم ثابت ہونے کے باوجود ملزمان کو سزائے موت نہ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی جس کے بعد کیس میں پیش رفت ہوئی اور برطانیہ نے باہمی قانونی معاونت کے تحت شواہد فراہم کیے۔
ملزمان کی ٹریول ہسٹری، موبائل فون ڈیٹا، فنگر پرنٹس رپورٹ، مقتول کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کو بطور شواہد ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے سماعت مکمل ہونے پر 21 مئی کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جو 18 جون کو سنایا گیا۔