نوازشریف کی رپورٹس میں کوئی جعل سازی نہیں ہوئی: وزیر صحت پنجاب

فائل فوٹو: یاسمین راشد

لاہور: وزیرصحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی میڈیکل رپورٹس میں جعل سازی کی باتوں کو مسترد کردیا۔

نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا کہ نوازشریف کی رپورٹس میں کوئی جعل سازی نہیں ہوئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ سیمپلز کی باقاعدہ تصدیق سرکاری کے علاوہ نجی لیبز سے بھی کی گئی اور تقریباً سب کی رپورٹس ایک جیسی آئیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہماری  ذمہ داری تھی کہ یقینی بنائیں رپورٹس تصدیق شدہ ہوں ہم نے یہ معلومات میڈیا سے بھی شیئر کیں۔

وزیر صحت کا کہنا تھا کہ اہم بات یہ ہےکہ اس وقت دماغ میں جو شکوک پیدا ہورہے ہیں وہ جو ن لیگ اور نوازشریف نے جو رویہ اختیار کیا اس سے تکلیف ہورہی ہے، یہ ایک اخلاقی تقاضہ ہے کہ مجرم ہونے کے باوجود انہیں سہولیات دیں اور ان کا علاج کرایا لیکن  ان ساری باتوں کے بعد اس طرح کی باتیں ہونا تکلیف دہ چیزیں ہیں۔

یاسمین راشد نے مزید کہا کہ اگر نوازشریف مقررہ وقت پر واپس آجاتے یا پھر وہاں اپنا علاج کراتے تو یہ شکوک و شبہات پیدا ہی نہیں ہوتے۔

واضح رہے کہ حکومت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو وطن واپس لانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں برطانوی حکومت سے رابطہ کیا جائے گا۔

اس سلسلے میں وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ  نواز شریف کی ضمانت ختم ہوچکی، ان کا اسٹیٹس مفرور کا ہے اس لیے انہیں وطن واپس لانے کے لیے تمام قانونی راستے اختیار کیے جائیں گے۔

پس منظر

میاں نوازشریف کی طبیعت21 اکتوبر 2019 کو خراب ہوئی اور ان کے پلیٹیلیٹس میں اچانک غیر معمولی کمی واقع ہوئی، اسپتال منتقلی سے قبل سابق وزیراعظم کے خون کے نمونوں میں پلیٹیلیٹس کی تعداد 16 ہزاررہ گئی تھی جو اسپتال منتقلی تک 12 ہزار اور پھر خطرناک حد تک گرکر 2 ہزار تک رہ گئی تھی۔

نوازشریف کو پلیٹیلیٹس انتہائی کم ہونے کی وجہ سے کئی میگا یونٹس پلیٹیلیٹس لگائے گئے لیکن اس کے باوجود اُن کے پلیٹیلیٹس میں اضافہ اور کمی کا سلسلہ جاری ہے۔

نوازشریف کی صحت کے معاملے پر ایک سرکاری بورڈ بنایا گیا تھا جس کے سربراہ سروسز انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (سمز) کے پرنسپل پروفیسر محمود ایاز تھے جب کہ اس بورڈ میں نوازشریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان بھی شامل تھے۔

سابق وزیراعظم نوازشریف 16 روز تک لاہور کے سروسز اسپتال میں زیر علاج رہے جس کے بعد انہیں 6 نومبر کو سروسز سے ڈسچارج کرکے شریف میڈیکل سٹی منتقل کیا گیا تاہم شریف میڈیکل سٹی جانے کی بجائے ان کی رہائش گاہ جاتی امرا میں ہی ایک آئی سی یو تیار کیا گیا جس کی وجہ سے وہ اپنی رہائش گاہ منتقل ہوگئے۔

سابق وزیراعظم کی بیماری تشخیص ہوگئی ہے اور ان کو لاحق بیماری کا نام اکیوٹ آئی ٹی پی ہے، دوران علاج انہیں دل کا معمولی دورہ بھی پڑا جبکہ نواز شریف کو ہائی بلڈ پریشر، شوگراور گردوں کا مرض بھی لاحق ہے۔

نواز شریف کو لاہور ہائیکورٹ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت دی ہے اور ساتھ ہی ایک ایک کروڑ کے 2 مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔

دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ نے 26 اکتوبر کو ہنگامی بنیادوں پر العزیزیہ ریفرنس کی سزا معطلی اور ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی اور انہیں طبی و انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 29 اکتوبر تک عبوری ضمانت دی تھی جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم کی سزا 8 ہفتوں تک معطل کردی۔

اس مقدمے میں سابق وزیراعظم کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔

8 نومبر کو شہباز شریف نے وزارت داخلہ کو نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دی اور 12 نومبر کو وفاقی کابینہ نے نوازشریف کو باہر جانے کی مشروط اجازت دی۔

ن لیگ نے انڈيمنٹی بانڈ کی شرط لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردی اور 16 نومبر کو لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی جس کے بعد 19 نومبر کو نواز شریف علاج کے لیے لندن روانہ ہوگئے۔

مزید خبریں :