دنیا
Time 07 ستمبر ، 2020

خاشقجی قتل کیس کا حتمی فیصلہ جاری، ملزمان کی سزائے موت 20 سال قید میں تبدیل

صحافی کے قتل کے الزام میں 5 ملزمان کو 20، 20 سال قید جب کہ دیگر تین ملزمان کو 7 سے 10 سال تک کی قید کی سزائیں سنائی گئیں — فوٹو:فائل

سعودی عدالت نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 8 ملزمان کو قید کی سزائیں سناتے ہوئے مقدمے کو ختم کردیا۔

سعودی پراسیکیوٹر جنرل کے ترجمان کے مطابق دارالحکومت ریاض کی فوجداری عدالت کی جانب سے صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ملزمان کو سنائی گئی سزائیں حتمی ہیں۔

صحافی کے قتل کے الزام میں 5 ملزمان کو 20، 20 سال قید جب کہ دیگر تین ملزمان کو 7 سے 10 سال تک کی قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ آٹھوں ملزمان کو مجموعی طور پر 124 سال قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔

ترجمان کی جانب سے مزید کہا گیا کہ سزائیں سنائے جانے اور لواحقین کی دستبرداری کے بعد مقدمہ خارج کردیا گیا ہے۔

گزشتہ سال دسمبر میں سعودی عدالت نے جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 5 ملزمان کو سزائے موت سنائی تھی جب کہ 3 ملزمان کو جرم پر پردہ ڈالنے کا الزام ثابت ہونے پر 24 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم بعد ازاں مقتول صحافی کے لواحقین نے قاتلوں کو معاف کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد قانون کے تحت سزائیں کم کی گئی ہیں۔

خاشقجی قتل کیس کا پس منظر

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے منسلک سعودی صحافی جمال خاشقجی 2 اکتوبر 2018 کو ترکی میں استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے سے لاپتہ ہو گئے تھے جس کے بعد ان کو قتل کیے جانے کی تصدیق ہوئی۔

بعد ازاں سعودی عرب کی جانب سے اس بات کا اعتراف کیا گیا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں واقع قونصل خانے میں لڑائی کے دوران ہلاک ہوئے۔

برطانوی میڈیا کے مطابق سعودی صحافی کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاش کو بے دردی سے ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا تھا جب کہ گمشدگی کے چند روز بعد جمال خاشقجی کے جسم کے اعضاء سعودی قونصلر جنرل کے گھر کے باغ سے برآمد ہوئے تھے۔

امریکی اخبار سے منسلک صحافی کو ترکی میں قتل کیے جانے کے بعد امریکا اور ترکی کے علاوہ عالمی برادری کی جانب سے سخت ردعمل ظاہر کیا گیا تھا جب کہ اس دوران ترکی اور امریکا سے سعودی حکومت کے تعلقات میں بھی تناؤ دیکھا گیا۔

تاہم سعودی عرب کا کہنا تھا کہ اس میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا کوئی کردار نہیں اور نہ ہی انہوں نے اس حوالے سے احکامات دیے تھے۔

سعودی پراسیکیوٹر کے مطابق قتل کا حکم اس وقت کے نائب انٹیلی جنس چیف نے دیا تھا۔

اقوام متحدہ گرفتار افراد کے خلاف خفیہ سماعت کو عالمی معیار کے خلاف قراردیتے ہوئے اوپن ٹرائل کا مطالبہ بھی کرچکی ہے۔

مزید خبریں :