09 ستمبر ، 2020
اسلام آباد: سابق صدر آصف زرداری نے احتساب عدالت سے میگا منی لانڈرنگ ریفرنس خارج کرنے کی استدعا کردی۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج اعظم خان نے آصف زرداری کے خلاف جعلی بینک اکاؤنٹس و میگا منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں سابق صدر عدالت میں پیش ہوئے۔
اس موقع پر آصف زرداری کی صاحبزادی آصفہ بھٹو اور ہمشیرہ فریال تالپور بھی کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔
سماعت کے آغاز پر ہی آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں ایک درخواست دائر کی جس میں سابق صدر نے میگا منی لانڈرنگ ریفرنس کو خارج کرنے کی استدعا کی ہے۔
آصف زرداری نے درخواست میں مؤقف اپنایا ہےکہ میگا منی لانڈرنگ کیس کا ضمنی ریفرنس خارج کرکے انہیں بری کیا جائے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کیس میں فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی سے پہلے نئی درخواست آنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ منی لانڈرگ کا ضمنی ریفرنس خارج کرنے کی بات کر رہے ہیں، ہم نے منی لانڈرنگ میں کوئی ضمنی ریفرنس دائر ہی نہیں کیا، کیس کراچی سے منتقل ہو کر آیا تھا اس لیے اپنی تفتیش کے بعد ایک ریفرنس دائر کیا تھا۔
نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی خود روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ ان کو کوئی نئی تاریخ نہ دی جائے، درخواستیں یہ لاتے ہیں اور تیاری کے لیے بھی ان کو ہی وقت چاہیے، ہم ان کی درخواست پر آج ہی دلائل دینے کو تیار ہیں یہ تیار کیوں نہیں ہیں؟
احتساب عدالت کے جج نے فاروق نائیک سے پوچھا کہ آپ اس درخواست پر دلائل کے لیے تیار نہیں ہیں؟ اس پرانہوں نے کہا کہ درخواست پر دلائل کے لیے 17 ستمبر کی تاریخ مقرر کر دیں۔
عدالت نے میگا منی لانڈرنگ کے ضمنی ریفرنس میں آصف زرداری پر فرد جرم 17 ستمبر تک مؤخر کرتے ہوئے سماعت بھی اسی روز تک ملتوی کردی۔
بعد ازاں عدالت میں پارک لین کے ضمنی ریفرنس کی سماعت شروع ہوئی جس میں سابق صدر آصف زرداری سمیت دیگر ملزمان کی حاضری لگائی گئی۔
عدالت نے پارک لین ریفرنس کی مختصر سماعت کے بعد مزید کارروائی 17 ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے سابق صدر پر فرد جرم بھی اسی روز تک مؤخر کردی۔
واضح رہے کہ 11 جون 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے ضمانت مسترد کیے جانے کے بعد نیب کی ٹیم نے آصف زرداری کو گرفتار کیا تھا۔
آصف زرداری کو جعلی بینک اکاؤنٹس ریفرنس کے اے ون انٹرنیشنل کیس میں گرفتار کیا گیا، اس کیس میں زرداری سمیت ان کی بہن فریال تالپور بھی بینیفشریز میں شامل ہیں اور وہ بھی گرفتار ہیں۔
منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اُس وقت اٹھایا گیا، جب مرکزی بینک کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔
ایف آئی اے نے ایک اکاؤنٹ سے مشکوک منتقلی کا مقدمہ درج کیا جس کے بعد کئی جعلی اکاؤنٹس سامنے آئے جن سے مشکوک منتقلیاں کی گئیں۔
معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تو اعلیٰ عدالت نے اس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) تشکیل دی جس نے گزشتہ برس 24 دسمبر 2018 کو عدالت عظمیٰ میں اپنی رپورٹ جمع کرائی جس میں 172 افراد کے نام سامنے آئے۔
جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فوائد حاصل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا اور ان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی۔
اس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے بھی تفتیش کی گئی جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی تحریری طور پر جے آئی ٹی کو اپنا جواب بھیجا جب کہ اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی ایف آئی اے کی حراست میں ہیں۔
سپریم کورٹ نے 7 جنوری 2019 کو اپنے فیصلے میں نیب کو حکم دیا کہ وہ جعلی اکاؤنٹس کی از سر نو تفتیش کرے اور 2 ماہ میں مکمل رپورٹ پیش کرے جب کہ عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ بھی نیب کو بجھجوانے کا حکم دیا۔
اعلیٰ عدالت نے حکم دیا کہ تفتیش کے بعد اگر کوئی کیس بنتا ہے تو بنایا جائے۔
نیب نے 7 جنوری کو ہی جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کے لیے کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم (سی آئی ٹی) تشکیل دی جس کی سربراہی ڈی جی نیب راولپنڈی کو دی گئی۔
آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے 20 مارچ کو نیب کی کمائنڈ انویسٹی گیشن کے سامنے پیش ہو کر بیان ریکارڈ کرایا۔
نیب راولپنڈی نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں تین ریفرنسز تیار کر کے نیب ہیڈ کوارٹر بھجوائے اور چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیر صدارت نیب ایگزیکٹو بورڈ نے 2 اپریل کو جعلی اکاؤنٹس کیس میں پہلا ریفرنس اومنی گروپ کے چیف ایگزیکٹو عبدالغنی مجید اور دیگر کے خلاف دائر کرنے کی منظوری دی۔