جعلی اکاؤنٹس کیس کے مرکزی ملزم انور مجید کی ضمانت منظور

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے جعلی اکاؤنٹس کیس کے مرکزی ملزم انور مجید کی ضمانت منظور کرلی۔

جیونیوز کے مطابق جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے انور مجید کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ یہ تاثر زائل ہوناچاہیے کہ نیب کا رویہ سیاسی افراد کےساتھ مختلف ہے اور انور مجید تحقیقات میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔

جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیے کہ انور مجید کو شدید نوعیت کی دل کی بیماری ہے، علاج کرانا ان کا بنیادی حق ہے لیکن باہر کوئی نہیں جائے گا،  انور مجید کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔

عدالت نے کہا کہ نیب کی تفتیش میں تعاون جاری رکھا جائے، تفتیش میں عدم تعاون پر انور مجید کی ضمانت خارج ہوجائے گی۔

بعد ازاں عدالت نے طبی بنیادوں پر انور مجید کی ضمانت منظور کرلی اور انہیں 10 کروڑ روپے بینک گارنٹی ڈپٹی رجسٹرار کے پاس جمع کرانے کا حکم دیا۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہےکہ ملزم کا پاسپورٹ عدالت میں جمع کرایا جائے اور  ملزم کا نام ای سی ایل پر رہے گا۔

واضح رہےکہ  15 اگست 2018 کو اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے انور مجید اور ان کے صاحبزادے اے جی مجید کی ضمانت قبل از گرفتاری کی استدعا مسترد کردی تھی جس کے بعد ایف آئی اے نے انہیں کمرہ عدالت کے باہر سے گرفتار کیا تھا۔

جعلی اکاؤنٹس و منی لانڈرنگ کیس میں سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور بھی گرفتار ہیں۔

جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کا پسِ منظر

منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اُس وقت اٹھایا گیا، جب مرکزی بینک کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔

ایف آئی اے نے ایک اکاؤنٹ سے مشکوک منتقلی کا مقدمہ درج کیا جس کے بعد کئی جعلی اکاؤنٹس سامنے آئے جن سے مشکوک منتقلیاں کی گئیں۔

معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تو اعلیٰ عدالت نے اس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) تشکیل دی جس نے گزشتہ برس 24 دسمبر 2018 کو عدالت عظمیٰ میں اپنی رپورٹ جمع کرائی جس میں 172 افراد کے نام سامنے آئے۔

جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فوائد حاصل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا اور ان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی۔

اس کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے بھی تفتیش کی گئی جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی تحریری طور پر جے آئی ٹی کو اپنا جواب بھیجا جب کہ اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی ایف آئی اے کی حراست میں ہیں۔

سپریم کورٹ نے 7 جنوری 2019 کو اپنے فیصلے میں نیب کو حکم دیا کہ وہ جعلی اکاؤنٹس کی از سر نو تفتیش کرے اور 2 ماہ میں مکمل رپورٹ پیش کرے جب کہ عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ بھی نیب کو بجھجوانے کا حکم دیا۔

اعلیٰ عدالت نے حکم دیا کہ تفتیش کے بعد اگر کوئی کیس بنتا ہے تو بنایا جائے۔

نیب نے 7 جنوری کو ہی جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کے لیے کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم (سی آئی ٹی) تشکیل دی جس کی سربراہی ڈی جی نیب راولپنڈی کو دی گئی۔

آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے 20 مارچ کو نیب کی کمائنڈ انویسٹی گیشن کے سامنے پیش ہو کر بیان ریکارڈ کرایا۔

نیب راولپنڈی نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں تین ریفرنسز تیار کر کے نیب ہیڈ کوارٹر بھجوائے اور چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیر صدارت نیب ایگزیکٹو بورڈ نے 2 اپریل کو جعلی اکاؤنٹس کیس میں پہلا ریفرنس اومنی گروپ کے چیف ایگزیکٹو عبدالغنی مجید اور دیگر کے خلاف دائر کرنے کی منظوری دی۔

مزید خبریں :