10 ستمبر ، 2020
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اشتہاری قرار دینے کے بعد نواز شریف کی درخواست قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل طلب کر لیے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کے لیے نواز شریف کو سرینڈر کرنے کا حکم دیتے ہوئے 10 ستمبر کو عدالت میں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلوں پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ نے کی۔
جسٹس عامر فاروق نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ نواز شریف کو کسی کیس میں اشتہاری قرار دیا گیا ہے؟ کیا آپ نے کوئی نئی
جسٹس عامر فاروق نے مزید پوچھا جس ملزم کو اشتہاری قرار دے دیا گیا ہے اس کے کیا اثرات ہوں گے؟
نیب نے مؤقف اپنایا ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطل کی تھی، سیکرٹری داخلہ اور خارجہ کو قانون کے مطابق ذمہ داریاں ادا کرنے کا حکم دیا جائے۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ سماعت پر صرف ضمانت ختم ہونے کا معاملہ تھا، اب ایک عدالت سے اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے، احتساب عدالت سے اشتہاری ہونے کے بعد نواز شریف کی درخواست پر کیا اثر پڑے گا؟ اشتہاری ہونے کے بعد کیا ہم نواز شریف کی درخواست پر سماعت کر سکتے ہیں؟
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ اشتہاری ملزم کا قانون کے سامنے سرینڈر کرنا ضروری ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ آپ مجھ سے سوال پوچھ رہے ہیں اور یہ جواب دے دیتے ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق اشتہاری ملزم کو قانون کے سامنے سرینڈر کرنا ضروری ہے۔
نیب حکام کا کہنا تھا کہ توشہ خانہ ریفرنس میں اشتہاری ہونے کے بعد نواز شریف کو کوئی ریلیف نہیں مل سکتا، جس پر عدالت نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہےکہ اپیل مسترد کر رہے ہیں یا کسی کو سن نہیں رہے، صرف یہ بتائیں کہ کیا آپ کی نئی درخواستوں پر سماعت ہو سکتی ہے یا نہیں؟ آج عدالت کے سامنے کوئی اور سوال نہیں ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ آپ کی معلومات کے مطابق کیا نواز شریف کسی اسپتال میں داخل ہیں؟ جس ڈاکٹر کا میڈیکل سرٹیفکیٹ جمع کرایا گیا وہ تو خود امریکا میں ہیں، گزشتہ سات آٹھ ماہ میں نوازشریف اسپتال میں داخل ہی نہیں ہوئے، اگر کوئی اسپتال میں داخل ہو تو پھر بات الگ ہوتی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو موقع دیا تھا کہ وہ سرینڈر کریں، ابھی تک نواز شریف کو حاضری سے استثنیٰ بھی نہیں دیا گیا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ اس متعلق میں پہلے بھی عدالت کی معاونت کر چکا ہوں، آپ اس قانونی نکتے کو بھی دیکھ لیں، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ اس کے لیے ہم پہلے مفرور ڈیکلیئر کریں گے اور پھر اپیل سنیں گے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر ہم نے وفاقی حکومت کو بھی کہا تھا، ان سے بھی پوچھ لیتے ہیں کہ انہیں ہدایات ملی ہیں یا نہیں؟
خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ انڈر ٹیکنگ میں واضح ہےکہ ہائی کمیشن کے نمائندے کے ذریعے صحت کا جائزہ لیا جائے گا۔
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت نے اس متعلق کبھی کوئی کوشش نہیں کی؟ نومبر کے بعد کیا حکومت نے نواز شریف کی صحت سے متعلق جاننے کی کوشش کی؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ نہیں، ہم نے معلوم نہیں کیا کیونکہ وہ اسپتال میں داخل ہی نہیں ہوئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ نواز شریف بیرون ملک گئے اس کے بعد وفاقی حکومت نے علاج کی تصدیق کی؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہم نے نواز شریف کے علاج کی کوئی تصدیق نہیں کی کیونکہ علاج ہوا ہی نہیں۔
جسٹس عامرفاروق نے ریمارکس دیے کہ ایشو عدالت کے سامنے ہےکہ کیا نواز شریف کی درخواست سنی جاسکتی ہے؟ اس نکتے پر عدالت کی معاونت کریں، ہم منگل تک سماعت ملتوی کر دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ اس نکتے پر اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کو بطور حوالہ جات جمع کرا دیں۔
عدالت نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں نواز شریف کی اپیلوں پر سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ سے متعلق ہیں۔
نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا تھا۔
اس کیس میں احتساب عدالت کی جانب سے 6 جولائی کو نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو سزا سنائی گئی تھی اور وہ اڈیالہ جیل میں قید تھے۔
میاں نوازشریف کی طبیعت 21 اکتوبر 2019 کو خراب ہوئی اور ان کے پلیٹیلیٹس میں اچانک غیر معمولی کمی واقع ہوئی، اسپتال منتقلی سے قبل سابق وزیراعظم کے خون کے نمونوں میں پلیٹیلیٹس کی تعداد 16 ہزاررہ گئی تھی جو اسپتال منتقلی تک 12 ہزار اور پھر خطرناک حد تک گرکر 2 ہزار تک رہ گئی تھی۔
نوازشریف کو پلیٹیلیٹس انتہائی کم ہونے کی وجہ سے کئی میگا یونٹس پلیٹیلیٹس لگائے گئے لیکن اس کے باوجود اُن کے پلیٹیلیٹس میں اضافہ اور کمی کا سلسلہ جاری ہے۔
نوازشریف کی صحت کے معاملے پر ایک سرکاری بورڈ بنایا گیا تھا جس کے سربراہ سروسز انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (سمز) کے پرنسپل پروفیسر محمود ایاز تھے جب کہ اس بورڈ میں نوازشریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان بھی شامل تھے۔
سابق وزیراعظم نوازشریف 16 روز تک لاہور کے سروسز اسپتال میں زیر علاج رہے جس کے بعد انہیں 6 نومبر کو سروسز سے ڈسچارج کرکے شریف میڈیکل سٹی منتقل کیا گیا تاہم شریف میڈیکل سٹی جانے کی بجائے ان کی رہائش گاہ جاتی امرا میں ہی ایک آئی سی یو تیار کیا گیا جس کی وجہ سے وہ اپنی رہائش گاہ منتقل ہوگئے۔
سابق وزیراعظم کی بیماری تشخیص ہوگئی ہے اور ان کو لاحق بیماری کا نام اکیوٹ آئی ٹی پی ہے، دوران علاج انہیں دل کا معمولی دورہ بھی پڑا جبکہ نواز شریف کو ہائی بلڈ پریشر، شوگراور گردوں کا مرض بھی لاحق ہے۔
نواز شریف کو لاہور ہائیکورٹ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت دی ہے اور ساتھ ہی ایک ایک کروڑ کے 2 مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ نے 26 اکتوبر کو ہنگامی بنیادوں پر العزیزیہ ریفرنس کی سزا معطلی اور ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کی اور انہیں طبی و انسانی ہمدردی کی بنیاد پر 29 اکتوبر تک عبوری ضمانت دی تھی جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم کی سزا 8 ہفتوں تک معطل کردی۔
اس مقدمے میں سابق وزیراعظم کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
8 نومبر کو شہباز شریف نے وزارت داخلہ کو نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دی اور 12 نومبر کو وفاقی کابینہ نے نوازشریف کو باہر جانے کی مشروط اجازت دی۔
ن لیگ نے انڈيمنٹی بانڈ کی شرط لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کردی اور 16 نومبر کو لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی جس کے بعد 19 نومبر کو نواز شریف علاج کے لیے لندن روانہ ہوگئے۔