10 ستمبر ، 2020
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سرینڈر کرنے کیلئے دی جانے والی مہلت ختم ہوگئی اور نواز شریف نے سرنڈر نہيں کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی اپیلوں پر سماعت کی اور اس دوران سابق وزیراعظم کو دی گئی مہلت کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ نے نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔ عدالت نے سماعت کے دوران کہا ہے اس قانونی نکتے پر عدالت کی معاونت کریں کہ کیا اشتہاری ملزم کے سرینڈر کیے بغیر کسی دوسرے کیس میں اس کی درخواست سنی جا سکتی ہے یا نہیں؟
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ نوازشریف 19 نومبرکو بیرون ملک گئے، 4 ہفتے کی مدت دسمبر میں ختم ہوئی اور وفاقی حکومت نے ابھی تک ان کی صحت معلوم کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا آج عدالت کے سامنے صرف یہ سوال ہے کہ اشتہاری ہونے کے بعد کیا ہم نواز شریف کی درخواست پر سماعت کر سکتے ہیں؟ اشتہاری ملزم کا سرینڈرکرنا ضروری ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ جس ڈاکٹر کا میڈیکل سرٹیفکیٹ جمع کرایا گیا وہ تو خود امریکا میں ہیں جبکہ نواز شریف گزشتہ سات آٹھ ماہ سے لندن میں ہیں اور اسپتال بھی داخل نہیں ہوئے۔
اس موقع پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اس متعلق میں پہلے بھی عدالت کو بتا چکا ہوں، ہم چاہتے ہیں کہ نواز شریف کی درخواست اور اپیلیں سنی جائیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا اس کے لیے ہم پہلے مفرور ڈیکلیئر کریں گے اور پھر اپیل سنیں گے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ انڈرٹیکنگ میں واضح لکھا ہےکہ ہائی کمیشن کےنمائندے کے ذریعے صحت کا جائزہ لیا جائے گا۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے نواز شریف کی صحت کا معلوم نہیں کیا کیونکہ وہ اسپتال میں داخل نہیں اور علاج ہوا ہی نہیں۔
اس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ نواز شریف کو موقع دیا تھا کہ وہ سرینڈر کریں، ابھی تک نوازشریف کو حاضری سے استثنیٰ بھی نہیں دیا گیا۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس نکتے پر عدالت کی معاونت کریں کہ اگرایک کیس میں کوئی اشتہاری ہوجائےتو کیا دوسرے کیس میں اس کو سناجاسکتا ہے؟ اسی نکتے پر اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے بطور حوالہ جات جمع کرا ئیں اور آئندہ سماعت پر دلائل دیں۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کر دی۔
علاوہ ازیں قومی احتساب بیورو (نیب) نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی ضمانت منسوخی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے اور گرفتاری کی اجازت مانگی ہے۔
درخواست میں کہا کہ نواز شریف نے سزا معطلی کے بعد اس رعایت کا غلط استعمال کیا، بیرون ملک جا کر مفرور ہو گئے، ضمانت منسوخ کر کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔
سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ سے متعلق ہیں۔
نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا تھا۔
اس کیس میں احتساب عدالت کی جانب سے 6 جولائی کو نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو سزا سنائی گئی تھی اور وہ اڈیالہ جیل میں قید تھے، تاہم 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے تینوں کی سزائیں معطل کرکے انہیں رہا کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔
العزیزیہ اسٹیل ملز اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا۔
نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے۔
نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے، جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا تھا جبکہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نامزد ہیں۔