Time 25 ستمبر ، 2020
کاروبار

دنیا میں اب کتنا سونا باقی رہ گیا ہے؟

— فائل فوٹو

گزشتہ ماہ عالمی بازار میں ایک اؤنس سونے کی قیمت اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 2000 ڈالر سے بھی زیادہ ہو گئی۔

اگرچہ قیمت میں اس اضافے کے پیچھے زیادہ بڑا ہاتھ سونے کے تاجروں کا تھا مگر اس نے سونے کی رسد اور فراہمی کے بارے میں سوالات نے جنم لیا کہ یہ قیمتی ترین دھات دنیا سے کب ختم ہو سکتی ہے۔

دنیا بھر میں بہترین سرمایہ کاری اور امیر ہونے کی علامت کے ساتھ ساتھ متعدد الیکٹرانک مصنوعات میں اہم جز  ہونے کی وجہ سے سونے کی طلب انتہائی زیادہ ہے۔

کیا سونے کی پیداوار کم ہو رہی ہے؟

یہ ایک ایسی قدرتی دھات ہے جو کہ ختم ہو سکتی ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ دنیا میں سونے کے ذخائر ختم ہو جائیں گے۔

کئی ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا سونے کی پیدوار اپنی بلندی کی حد کو عبور کر چکی ہے۔

ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق 2019 میں دنیا بھر میں 3 ہزار 531 ٹن سونا نکالا گیا جو کہ 2018 کے مقابلے میں تقریباً ایک فیصد کم تھا۔ یہ 2008 کے بعد پہلی مرتبہ تھا کہ دنیا میں سونے کی کان کنی میں کمی واقع ہوئی ہو۔

ورلڈ گولڈ کونسل کی ترجمان کا کہنا ہے کہ سونے کی کان کنی آئندہ کچھ سالوں کے دوران ہو سکتا ہے کم یا سست ہو کیونکہ سونے کے موجودہ ذخائر کم ہو چکے ہیں جب کہ نئے ذخائر کی دریافت بھی تقریباً نایاب ہے مگر یہ کہنا کہ سونے کے ذخائر اپنی بلندی کو چھو چکے ہیں ابھی قبل از وقت ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ یہ مان بھی لیں سونے کی پیدوار اپنی بلندی کو چھو چکی ہے تو پھر بھی آئندہ برسوں کے دوران اس کی پیدوار میں کسی ڈرامائی کمی کا امکان نہیں ہے۔ اس کے برعکس آئندہ کچھ دہائیوں کے دوران ہمیں اس میں واضح کمی نظر آئے گی۔

میٹلز ڈیلی ڈاٹ کام کے راس نورمان کا کہنا ہے کہ سونے کی پیدوار اس وقت متوازی ہے مگر اس میں کمی کا امکان ہے ۔

دنیا میں کتنا سونا باقی رہ گیا؟

دنیا میں سونے کے ذخائر کا درست اندازہ لگانا ضرور ممکن ہے مگر یہ کام آسان بالکل بھی نہیں ہے۔

امریکی جیولوجیکل سروےکے مطابق اب تک دنیا میں تقریباً ایک لاکھ 90 ہزار ٹن سونا نکالا جا چکا ہے  جب کہ بقیہ دستیاب ذخائر تقریباً 50 ہزار ٹن ہیں۔

اس معلومات کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت دنیا میں سونے کے صرف 20 فیصد ذخائر باقی رہ چکے ہیں۔ لیکن آرٹیفیشل انٹیلی جنس سمیت نئی ٹیکنالوجی یہ امید بھی پیدا کر رہی ہے کہ ہم ان ذخائر تک بھی پہنچ سکیں جن تک اس وقت رسائی ممکن نہیں ہے یا معاشی لحاظ سے سود مند نہیں تھی۔

مزید خبریں :