فروغ نسیم، شہزاد اکبر کیخلاف کارروائی کی جائے: جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیے جانے کے تفصیلی فیصلے میں اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے۔

سپریم کورٹ نے چار ماہ بعد جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے۔

سات ججز کا 173 صفحات پر مشتمل اکثریتی فیصلہ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیا ل نے تحریر کیا ہے جب کہ جسٹس فیصل عرب نے اضافی نوٹ لکھا ہے اور جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے 24 صفحات کے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے انکم ٹیکس ریٹرن کی خفیہ معلومات دینے پر  اور کیس کا مکمل ریکارڈ ایف بی آر کے سامنے رکھ کر وزیر قانون فروغ نسیم، چیئرمین ایسٹ ریکوری یونٹ (اے آر یو) مرزا شہزاد اکبر، سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور متعلقہ انکم ٹیکس آفیسرز کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

اختلافی نوٹ  میں لکھا گیا ہے کہ حساس نوعیت کی کارروائی کے باعث قانون پر سختی سے اس کی اصل روح کے مطابق عمل کیا جائے اور موجودہ چیئرمین ایف بی آر فیصلہ ملنے کے 15 روز بعد اپنے دستخط سے رجسٹرار آفس میں عمل درآمد رپورٹ جمع کرائیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ صدر مملکت آئین کے تحت حاصل صوابدیدی اختیار استعمال کرنے میں ناکام رہے، ریفرنس فائل کرنے سے متعلق تمام عمل آئین اور قانون کی خلاف ورزی پر مبنی تھا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ عدلیہ کی آزادی اس قدر نازک نہیں کہ وہ شکایات سے کمزور ہو، ججز کا احتساب جمہوری طور پر متحرک معاشرے کا لازمی جز ہے اور رہے گا، ججز کا بلا امتیاز، بلا تفریق، قانونی اور شفاف احتساب عدلیہ کی آزادی کو مزید تقویت بخشے گا، اس عمل سے عوام کا اعتماد بڑھے گا اور ملک میں قانون کی حکمرانی کو فروغ ملے گا۔

خیال رہے کہ 19 جون 2020 کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے مختصر فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریفرنس کالعدم قرار دینے کی درخواست منظور کرلی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دینے کا فیصلہ تمام 10 ججز متفقہ کا تھا۔

7 ججز نے قاضی فائز کی اہلیہ کے ٹیکس معاملات فیڈرل بورڈ آف ریوینو (ایف بی آر) کو بھیجنے کا حکم دیا تھا جبکہ ایک جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریفرنس کیخلاف قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست ناقابل سماعت قرار دی تھی۔

خیال رہے کہ صدارتی ریفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر بیرون ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

مزید خبریں :