پاکستان
Time 23 اکتوبر ، 2020

صدر کو ایگزیکٹو کسی معاملے پر مجبور نہیں کر سکتی، جسٹس فیصل عرب کا اضافی نوٹ

صدر نے سمری پر صرف دستخط کیے، اس میں ان کی اپنی رائے شامل نہیں تھی، صدر کا کام ہے کہ وہ ثبوتوں اور معاملات کا جائزہ لیں پھر فیصلہ کریں، جسٹس فیصل عرب— فوٹو: فائل 

سپریم کورٹ کے جج جسٹس فیصل عرب نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے تفصیلی فیصلے میں اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔

سپریم کورٹ نے چار ماہ بعد جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دینے کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے۔

سات ججز کا 173 صفحات پر مشتمل اکثریتی فیصلہ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے جب کہ جسٹس فیصل عرب نے اضافی نوٹ لکھا ہے اور جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے فیصلے میں 22 صفحات پر مشتمل اپنے اضافی نوٹ میں جسٹس فیصل عرب نے لکھا کہ ریفرنس ظاہر کرتا ہے کہ وزیراعظم کو یہ تجویز کیا گیا کہ وہ صدر مملکت کو ریفرنس دائر کرنے کی منظوری کے لیے ایڈوائس بھیجیں، صدر مملکت نے سمری پر صرف دستخط کیے، اس میں ان کی اپنی رائے شامل نہیں تھی۔

اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ایگزیکٹو کا کام ہے کہ وہ ایسی صورت میں صدر مملکت کو آگاہ کر کے تجویز کرے مگر صدر مملکت کا کام ہے کہ وہ ان تمام ثبوتوں اور معاملات کا جائزہ لیں، اس پر رائے لیں اور اس کے بعد فیصلہ کریں کہ ایگزیکٹو کی جانب سے ان کو بھیجی گئی سمری قابل عمل ہے یا نہیں کیونکہ ایگزیکٹو صدر مملکت کو کسی معاملے پر مجبور نہیں کر سکتی۔

جسٹس فیصل عرب نے لکھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا وکلاء برادری میں انتہائی احترام ہے، جب ان کے مالی معاملات پرسوال اٹھا تویہ انتہائی لازمی تھا کہ وہ اپنی لندن جائیدادوں کو ظاہر کرکے اپنے اوپر لگے داغ کو دھوئیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بہترہوتا کہ معاملے کو تحقیقات کراکے حتمی انجام تک پہنچایا جاتا تاکہ الزام کو غلط ثابت کیا جاتا تاکہ عوامی سطح پر شکوک و شبہات کو ختم کیا جا سکتا، جج قانون سے بالاتر نہیں اور آئین کا محافظ ہے۔

جسٹس فیصل عرب نے لکھا کہ اگر آئین کے آرٹیکل 209 کو کسی بھی وجہ سے غیر فعال کیاگیا تو یہ آرٹیکل جن لوگوں کیلئے بنایا گیا تھا، یہ ان کیلئے مردہ ہوگیا، قانون کی نظر میں صدارتی ریفرنس قابل سماعت نہیں۔

خیال رہے کہ 19 جون 2020 کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے مختصر فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریفرنس کالعدم قرار دینے کی درخواست منظور کرلی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دینے کا فیصلہ تمام 10 ججز متفقہ کا تھا۔

7 ججز نے قاضی فائز کی اہلیہ کے ٹیکس معاملات فیڈرل بورڈ آف ریوینو (ایف بی آر) کو بھیجنے کا حکم دیا تھا جبکہ ایک جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریفرنس کیخلاف قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست ناقابل سماعت قرار دی تھی۔

خیال رہے کہ صدارتی ریفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر بیرون ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

مزید خبریں :