پاکستان
Time 27 اکتوبر ، 2020

حکومتی فیصلوں کی وجہ سے عوام کو 404 ارب روپے کا نقصان پہنچنے کا انکشاف

حکومتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرانے کی وجہ سے چینی مہنگی ہونے کے باعث 184 ارب روپے— فوٹو:فائل 

جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں حکومتی نااہلی کے باعث ملک اور عوام کو 404 ارب روپے کے نقصان کا انکشاف ہوا ہے۔

حکومت سب سے زیادہ توجہ چینی اور گندم پر دینے کا دعویٰ  کرتی ہے مگر سب سے زیادہ بدانتظامی بھی ان ہی دو اجناس میں دکھائی دے رہی ہے جس کی وجہ سے اب تک مجموعی طورپرعوام کو 404 ارب روپے کا ٹیکا لگ چکا ہے۔

پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ‘ کی تحقیقات کے مطابق حکومتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرانے کی وجہ سے چینی مہنگی ہونے کے باعث 184 ارب روپے کا نقصان ہوا جبکہ گندم مہنگی ہونے اور بروقت فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے عوام کو 220ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔

ایک سال میں مہنگی گندم اور درآمد میں تاخیر سے 220ارب روپے کانقصان

پروگرام کی تحقیق کے مطابق بروقت فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے ملک میں گندم کا بحران آیا اور اِس وقت ملک میں آٹے کی قیمت تاریخی سطح پر ہے۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حکومت کے پاس چار موقعے تھے جب حکومت بروقت ایکشن لیتی تو مہنگی گندم درآمد نہیں کرنی پڑتی۔

پہلے اپریل میں جب پتا چل گیا تھا کہ گندم کی پیداوار ہدف کے مطابق نہیں ہوئی۔

پھر جب مئی میں پروکیورمنٹ بھی ہدف کے مطابق نہیں ہوسکی، اس کے بعد جون میں جب حکومت نےفیصلہ کیا کہ گندم درآمد کرنی  پڑے گی مگر جولائی کے آخر تک فیصلے کا نوٹیفکیشن ہی جاری نہیں کیا۔

پھراس کے بعد جولائی میں جب حکومت نے گندم کی درآمد پر ٹیکس رعایت کا فیصلہ کیا مگر پھر بھی درآمد نہیں کی گئی جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا۔

قیمتوں میں مسلسل اضافے کا صارفین پر 205 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑا، پاکستان میں گندم کا سالانہ فی کس استعمال تقریباً 124کلو ہے یعنی ماہانہ فی کس گندم کا استعال 10کلو گرام سے زائد ہے اور پاکستان کی آبادی 22کروڑ ہے۔

اس لحاظ سے دیکھاجائے تو اکتوبر 2018 میں ایک کلو آٹے کی قیمت 39 روپے 25 پیسے تھی جو اکتوبر 2019 میں 46 روپے 25 پیسے ہوگئی یعنی 7روپے کا اضافہ ہوا اور گزشتہ سال اکتوبر میں مہنگے آٹے کی وجہ سے شہریوں کو 16 ارب روپے اضافی ادا کرنے پڑے۔

اسی طرح نومبر 2018 میں آٹے کی قیمت 39روپے 25 پیسے تھی جو گزشتہ سال نومبر میں 45 روپے 65 پیسے ہوگئی اور ایک کلو آٹا 6روپے 40 پیسے مہنگا ہوگیا جس پر شہریوں کو مہنگے آٹے کی مد میں 14 ارب 50 کروڑ  روپے اضافی ادا کرنے پڑے۔

پھر دسمبر 2018 میں ایک کلو آٹے کی قیمت 39 روپے 3 پیسے تھی جو گزشتہ سال دسمبر میں 45 روپے 4 پیسے ہوگئی، ایک کلو آٹا 6 روپے مہنگا ہوگیا اور عوام کو 14ارب روپے اضافی دینے پڑے۔

اسی طرح جنوری 2019 میں ایک کلو آٹے کی قیمت 39 روپے 40 پیسے تھی جو جنوری 2020 میں بڑھ کر 48 روپے 40 پیسے ہوگئی یعنی ایک کلو آٹا 9 روپے مہنگا ہوگیا اور یوں عوام نے  20 ارب روپے اضافی دیے۔

فوٹو: جیو نیوز

فروری 2019 میں ایک کلو آٹے کی قیمت 39 روپے 50 پیسے تھی جو فروری 2020 میں 45 روپے 50پیسے ہوگئی، یعنی ایک کلو آٹا 6روپے مہنگا ہوگیا اور عوام کو 14 ارب روپے اضافی ادا کرنے پڑے۔

مارچ 2019 میں ایک کلو آٹے کی قیمت 39 روپے 50 پیسے تھی جو مارچ 2020میں 45 روپے ہوگئی اور ایک کلو آٹا 5 روپے مہنگا ہوگیا اور عوام کی جیب پر 11 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑا۔

اپریل 2019 میں ایک کلو آٹے کی قیمت 38 روپے 60 پیسے تھی جو اپریل 2020 میں بڑھ کر 44روپے 20 پیسے ہوگئی، یوں ایک کلو آٹا 5 روپے 60 پیسے مہنگا ہوگیا اور عوام کو 12 ارب روپے اضافی ادا کرنے پڑے۔

مئی 2019 میں ایک کلو آٹے کی قیمت 39روپے 25 پیسے تھی جو مئی 2020 میں 44 روپے 25 پیسے ہوگئی یعنی ایک کلو آٹا 5 روپے مہنگا ہوگیا اور عوام نے  11ارب روپے اضافی ادا کیے۔

جون 2019 میں آٹے کی قیمت 40 روپے تھی جو جون 2020میں بڑھ کر 51 روپے فی کلو ہوگئی یعنی 11 روپے فی کلو مہنگا ہوا جس کے نتیجے میں عوام کو جون کے مہینے میں 25ارب روپے اضافی ادا کرنے پڑے۔

جولائی 2019 میں ایک کلو آٹے کی قیمت 42 روپے تھی اور جو لائی 2020میں یہ قیمت 51 روپے ہوگئی یعنی9 روپے فی کلو کا فرق جس کےنتیجے میں عوام نے  20 ارب روپے اضافی ادا کیے۔

پھر اگست 2019 میں ایک کلو آٹے کی قیمت 42 روپے فی کلو تھی جو اگست 2020 میں 50 روپے 50 پیسے ہوگئی یعنی ایک کلو آٹا 8 روپے 50 پیسے مہنگاہوگیا اور عوام کو 19 ارب روپے اضافی ادا کرنے پڑے۔

— فوٹو: جیو نیوز

پھر ستمبر 2019 میں ایک کلو آٹے کی قیمت 43 روپے 30 پیسے تھی جو ستمبر 2020 یعنی گزشتہ ماہ 50 روپے 45 پیسے  تھی یعنی ایک کلو آٹا 7 روپے 15 پیسے مہنگا ہوگیا اور عوام کو 16 ارب روپے اضافی ادا کرنے پڑے۔

اکتوبر میں اب تک عوام 13 ارب روپے کی اضافی قیمت ادا کرچکے ہیں یعنی گزشتہ سال اکتوبر سے لےکر اب تک عوام 205 ارب روپے اضافی ادا کرچکی ہے۔

اسی طرح حکومت کادعویٰ ہے کہ 15لاکھ ٹن گندم درآمد کی جارہی ہے جس کے بعد گندم کا بحران ختم ہوجائے گا۔

مگر صورتحال یہ ہے کہ اگست میں بین الاقوامی مارکیٹ میں یہ خبر آچکی تھی کہ پاکستان میں شدید بحران ہے اورپاکستانی حکومت ایک ساتھ 30لاکھ ٹن درآمد کرے گی جس سے بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتیں 230 ڈالر فی ٹن سے 280 ڈالر فی ٹن پر پہنچ گئیں۔

اور اب حکومت 292 ڈالر فی ٹن تک گندم خرید رہی ہے۔

ایک ساتھ اتنا بڑا آرڈر لے جانے کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں گندم کی قیمت بڑھ گئی جس کے باعث اب حکومت کو ایک ٹن گندم کی قیمت میں 62 ڈالر اضافی ادائیگی کرنی پڑے گی۔

اپریل میں پتا چل گیا تھا کہ ملک میں گندم کی پیداوار ہدف سے کم ہوئی ہے مگر حکومت نے توجہ نہیں دی

اپریل میں پتا چل گیا تھا کہ ملک میں گندم کی پیداوار ہدف سے کم ہوئی ہے مگر حکومت نے توجہ نہیں دی، اگر حکومت بروقت فیصلہ کرتی اور آہستہ آہستہ مارکیٹ سے گندم خریدتی تو اسے 220 سے 230 ڈالر فی ٹن کی گندم ملتی لیکن اب یہ 290 ڈالر فی ٹن سے بھی اوپر کی پڑرہی ہے۔

گزشتہ سال جب پاکستان نے گندم ایکسپورٹ کی تو اس وقت ایک ٹن گندم 210ڈالر کی فروخت کی۔ اب اس سال280 ڈالر فی ٹن کے حساب سے درآمد کررہا ہے۔

یوں تاخیر سے فیصلے کی وجہ سے پاکستان 5 کروڑ ڈالرز سے زائد کی اضافی ادائیگی کرچکاہے یعنی 9 ارب روپے کا ملکی خزانے کو نقصان فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے پہنچ چکا ہے۔

حکومت کو اپنے دعوےکےمطابق گندم کی قیمت کم رکھنے کےلیے سبسڈی بھی دینی پڑے گی کیونکہ  280 ڈالر فی ٹن کی اوسط قیمت پر گندم ملی تو 20کلو گندم کی قیمت 920 روپے بنتی ہے اور حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ملک میں 840 روپے میں 20 کلو آٹے کے تھیلے کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی یعنی حکومت کو 20 کلو کے تھیلے پر 80 روپے کی سبسڈی دینی ہوگی یعنی ایک کلو پر 4 روپےکی سبسڈی اور 15لاکھ ٹن گندم پر 4روپے کی سبسڈی کا مطلب ہے کہ حکومت اپنے خزانے سے 6 ارب روپے کی سبسڈی مزید دے گی یعنی 9ارب روپے مہنگی گندم میں ضائع کردیے اور اس پر 6ارب روپے کی سبسڈی دینی ہوگی۔

اس کے علاوہ قیمتوں کی مد میں اضافے سے جو 205 ارب روپے کا نقصان ہوا وہ الگ ہے یوں کہ مجموعی طور پر 220 ارب روپے کا نقصان پہنچے گا۔

غلط فیصلوں کی وجہ سے مہنگی چینی کی فروخت سے 184 ارب روپے کا نقصان

اس کے علاوہ پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کی تحقیق کے مطابق مئی میں سامنے آنے والی شوگرکمیشن کی رپورٹ نے بتادیا تھا کہ ملک میں گنا بمشکل ملکی ضرورت پوری کرسکے گا مگر اس کے باوجود فوری طور پر چینی امپورٹ نہیں کی گئی۔

اب حکومت کا دعویٰ ہےکہ 55 ہزار ٹن چینی امپورٹ ہوگئی ہے اور مزید ایک لاکھ ٹن چینی جلد ہی آجائے گی جس کے بعد چینی کی قیمت میں 15روپے تک کمی آئے گی یعنی حکومت 85 روپے میں چینی کی فروخت یقینی بنائے گی۔

سہولت بازار میں بھی چینی 85روپے فی کلو بیچنے کا وعدہ کیا گیا ہے جو موجودہ قیمت سے تو 15روپے کم ہے مگر حکومت کے اپنے قائم کردہ شوگر کمیشن کی رپورٹ کے مطابق چینی کی قیمت مارکیٹ میں شوگر ملرز کا منافع اور تمام ٹیکسز ملا کر 63 روپے 13پیسے ہونی چاہیے۔

مگر درآمد ہونے کے بعد چینی شوگر کمیشن کے دعوے سے  22 روپے زیادہ میں ملے گی۔

روپوں میں ڈیڑھ لاکھ ٹن چینی پر 22 روپے کی زائد قیمت کا مطلب ہوگا کہ عوام پر 3 ارب 30 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا، اسی طرح حکومت یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے مارکیٹ سے مہنگی چینی خرید کرسبسڈی دے کر بیچتی رہی ہے۔

یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کی اپنی فراہم کردہ دستاویزات کے مطابق دسمبر سے جولائی تک یوٹیلٹی اسٹورز کارپویشن نے 2 لاکھ 10ہزار ٹن چینی خریدی اور شوگر مل مالکان کویوٹیلٹی اسٹورز سے سبسڈی کی مد میں 3 ارب روپے کا فائدہ پہنچایاگیا۔

اسی طرح شوگر کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بتایاتھاکہ چینی کی قیمت میں ایک روپے کا اضافہ ہوتا ہے تو شوگر مل مالکان کو سوا 5 ارب کا فائدہ ہوتا ہے اور پھر مئی میں شوگر کمیشن نےبتایاتھاکہ اب تک شوگر مافیا اس مد میں 100 ارب تک کا فائدہ اٹھاچکا ہے۔

اگر اس فارمولےکو سامنے رکھ کر حساب لگایا جائے تو جون کے مہینے میں چینی کی قیمت 90روپے فی کلو تھی تو شوگر مل مالکان کو 13ارب کا مزیدفائدہ پہنچا۔

جولائی میں چینی کی قیمت 95 روپے فی کلو ہوئی تو شوگر مل مالکان کو 15ارب روپے، اگست میں چینی کی قیمت 100روپے فی کلو ہوئی تو مل مالکان کو 17ارب روپےکا فائدہ ہوا جب کہ جب کہ ستمبر میں چینی کی قیمت 100روپے رہی تو اس مہینے بھی شوگر مل مالکان کو 17ارب روپے کا فائدہ ہوا۔

اور اب تک اکتوبر میں جب کہ چینی کی قیمت 110روپے فی کلو ہے تو شوگر مل مالکان کو 16 ارب روپے سے زائد کا فائدہ پہنچ چکا ہے۔

یعنی کمیشن کی رپورٹ آنے سے پہلے تک شوگر مل مالکان کو 100ارب روپے تک فائدہ پہنچا پھر مئی سے اب تک مزید 78 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا جاچکا ہے یعنی اب تک مہنگی چینی فروخت کرکے شوگر مل مالکان 178 ارب روپے زیادہ کما چکے ہیں۔

پھر چینی کی برآمد پر پنجاب حکومت نے 3ارب روپے کی سبسڈی اور دے دی، ہرطرف سے قومی خزانے پر الگ بوجھ پڑا، عوام کی جیب پر جو بوجھ پڑا وہ صرف چینی کی مد میں تقریباً 184ارب روپے ہیں۔

عوام اور ملک کے یہ پیسے بروقت اور درست فیصلوں سے بچائے جاسکتے تھے یوں 184 ارب روپے چینی کے اور 220ارب روپے گندم کی مد میں عوام کو نقصان پہنچا۔

صرف ان دو پرڈکٹس میں بدانتظامی کی وجہ سے قوم کو تقریباً 404 ارب روپےکانقصان اٹھانا پڑا اور وقت گزرنےکے ساتھ ساتھ یہ رقم بڑھ رہی ہے۔

رواں سال جنوری میں جب پاکستان میں مہنگائی 14.6فیصد تھی جو دنیامیں سب سے زیادہ تھی

اس کے علاوہ پروگرام میں پاکستان میں گزشتہ 9ماہ میں مہنگائی کی شرح کا خطے کے دیگر ممالک سے موازنہ بھی کیا گیا۔

رواں سال جنوری میں جب پاکستان میں مہنگائی 14.6فیصد تھی  جو دنیامیں سب سے زیادہ تھی، اُس وقت بھارت میں مہنگائی 7.59 فیصد، بنگلادیش 5.5 اور سری لنکا میں مہنگائی 5.7 فیصد تھی۔

اسی طرح ستمبر میں پاکستان میں مہنگائی ایک بار پھر سے بڑھی اور بڑھ کر 9 فیصد ہوگئی جبکہ بھارت میں 7.3 فیصد، بنگلادیش میں 5.9 اور سری لنکا میں 4 فیصد رہی۔

جنوری سے ستمبر تک  پاکستان مہنگائی میں سب سے آگے رہا۔

اس کے علاوہ پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں فوڈ انفیلیشن یعنی کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کا موازنہ بھی کیا گیا جہاں پاکستان خطے کے دیگر ممالک سے آگے رہا۔

جنوری سے ستمبر تک کوئی ایک مہینہ ایسا نہیں ہے کہ جب پاکستان کی مہنگائی یا صرف کھانے پینے کی اشیاء کی مہنگائی خطے کی اوسط مہنگائی یا پوری دنیا کی اوسط مہنگائی سے کم رہی ہو۔

مزید خبریں :