10 لاکھ افراد کو بیروزگار کرنے کا پروگرام

فائل:فوٹو

باپ بیٹا جنگل میں شکار کھیلنے گئے، شکار ہاتھ نہ لگا تو تھک ہار کر اپنے اپنے خیموں میں سو گئے۔ آدھی رات کو باپ نے بیٹے کو اُٹھایا اور کہا کہ اوپر دیکھو بیٹے نے کہا کہ آج آسمان پر ستارے جگمگا رہے ہیں، چاند روشنی بکھیر کر جنگل کو منگل کر رہا ہے۔

باپ نے غصے سے بیٹے کو تھپڑ مار کر کہا بیوقوف دیکھ نہیں رہا کہ ہمارے خیمے غائب ہو گئے ہیں۔ کچھ ایسا ہی ہماری معیشت کے ساتھ ہوا اور جو صرف 28 مہینوں میں دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گئی اور اب مہنگائی کی آڑ میں یہ حکومت، جس نے کنٹینر پر بیٹھ کر قوم کو سبز باغ دکھائے تھے جو ایک ایک کر کے خوفناک بدحالی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

کورونا کی آڑ میں دوبارہ معاش یعنی روزگار پر حملہ کرنے کے درپے ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ ہم روزگار اور کاروبار کسی قیمت پر بند نہیں کر یں گے، مگر ان کے وزراء، معاونین، مشیر بڑے بڑے شہروں کو اور 21 نومبر سے شادی ہالوں کو جو 7 ماہ بعد کھلے تھے یک لخت بند کر کے لاکھوں افراد کو بیروزگار کرنے والے ہیں۔


صرف شادی ہال بند کرنے سے اس سے منسلک کاروبار جس میں بیوٹی پارلرز، جیولری، ملبوسات، کاسمیٹکس کی دکانیں، فلاور شاپس اور بارہ، پندرہ دیگر کاروبار شامل ہیں، بند ہوجائیں گے۔لاکھوں افراد دوبارہ قرضوں میں جکڑے جائیں گے جو ابھی بمشکل دو تین ماہ بعد اپنے پرانے قرضے اور فاقوں سے نجات حاصل کر پائے تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہوٹل، ریسٹورینٹس کھلے رہیں گے تو کیا وہاں کورونا کا اثر نہیں ہوگا جبکہ شادی ہالوں کی مارکیاں تو کئی کئی گز کھلی اور اونچی ہوتی ہیں۔

شادی میں شرکت کے لئے تعداد بھی آدھی کر دی گئی ہے اور SOP's بھی بتا دیے گئے ہیں۔ بوفے سسٹم ختم کر کے میز پر کھانا سرو کیا جارہا ہے۔

ماسک اور سینی ٹائزر کا بھی پابند بنا دیا گیا ہے۔ پھر بیٹھے بٹھائے یہ مصیبت دوبارہ کیوں مسلط کی جا رہی ہے۔ جب کہ ایک طرف حکومت خود اور اس کے مقابلے میں حزب اختلاف اور پی ڈی ایم ہر چھوٹے بڑے شہر میں بڑھ چڑھ کر جلسے کر رہی ہے، کیا اس سے کورونا نہیں پھیلے گا؟

ان شادی ہالوں میں جہاں مرد و خواتین گھروں سے نہا دھو کر اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر آتے ہیں، صرف 2، ڈھائی گھنٹوں میں فاصلوں سے بیٹھ کر کھانا کھانے سے کورونا پھیلنے کا اندیشہ حماقت سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ فیکٹریوں میں لاکھوں کاریگر مرد و خواتین بسوں میں سفر کر کے اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ کمرشل مارکیٹیں پبلک سے بھری ہیں۔

خدا کا شکر ہے کہ 22 کروڑ کی آبادی والے پاکستان میں کورونا کی ہلاکت خیزی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اتنا واویلا مچا کر قوم کو دہشت زدہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ پہلے ہی قوم مہنگائی اور بیروزگاری سے دو چار ہے اور دوبارہ چوریوں اور ڈاکہ زنی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

دن دہاڑے عوام لٹنے لگے ہیں، پرس اور موبائل چھننے کے واقعات میں تیزی آچکی ہے۔پولیس اور انتظامیہ بے بس ہے ایسے میں مزید بیروز گاری پھیلانا خود حکومت کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

حکومت کو چاہئے کہ SOP's پر سختی سے عمل کرا کر شادی ہال اور اس سے منسلک کاروبار بند نہ کرے۔شادیوں کی بکنگ اور پلاننگ مہینوں قبل ہوتی ہے، صرف ایک ہفتے کے نوٹس سے یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کو یک لخت بند کر دیا جائے، بہتر ہے کہ اس مسئلہ کا افہام و تفہیم سے متعلقہ کاروباری افراد کو بلا کر کوئی حل نکالا جائے۔

دوسری جانب اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی جانب سے حکومت مخالف تحریک کے آغاز سے ملک میں باقاعدہ سیاسی جنگ چھڑگئی ہے، اپوزیشن اتحاد کے 3 بڑے اور کامیاب جلسے گوجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ میں منعقد ہو چکے ہیں جن میں عوام نے بلاشبہ بڑی تعداد میں شرکت کی اور اس میں کوئی حیرت یا اچنبھے کی بات اس لئے نہیں کہ اپوزیشن نے جن حالات میں اپنی تحریک کا آغاز کیا عوام کی بد دلی اور مایوسی اپنے نقطہ عروج کو چھورہی ہے۔

منہ زور مہنگائی نے اچھے بھلے کھاتے پیتے گھرانوں کے افراد کو بھی تگنی کا ناچ نچا دیا ہے، بے روزگاری ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن کر اس ملک کو چلانے اور عوام کے نام پر سیاست کرنے والوں کے سامنے موجود ہے۔

لاک ڈاؤن کے دوران بجلی و گیس کے بلوں میں قسطوں کی سہولت دینے والی حکومت نے جب یکدم واجبات اور ٹیرف بڑھا کر بل بھیجے ہیں تو لوگ بلبلا اٹھے ہیں۔ وزیر اعظم ان سوا دو برس میں اتنا تو ضرور جان چکے کہ ان کی ٹیم وہ ڈیلیور نہیں کرپا رہی جس کی انہیں امید تھی۔

لیکن ان کی شاید مجبوری ہو کہ وہ سیاسی پرندوں کی زیادہ اکھاڑ پچھاڑ نہیں کرسکتے کیونکہ ایک جانب تو پی ٹی آئی کے اقتدار کی کرسی اتحادیوں کی مرہون منت ہے تو دوسری جانب الیکٹیبلز کی بڑی تعداد بھی ان کی جماعت میں شامل ہے۔

جس دن الیکٹیبلز کو احساس ہوا کہ اب ان تلوں میں تیل نہیں رہا تو موسمی پرندوں کی طرح اُڑ جائیں گے اور عمران خان کچھ کرنا بھی چاہیں گے تو دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح صرف تماشہ ہی دیکھتے رہ جائیں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔