19 نومبر ، 2020
خدا کا شکر لاہور قلندر نے ہارنے کے بعد یہ نہیں کہا کہ دھاندلی ہوگئی، کراچی کنگز جیتا نہیں اسے جتوایا گیا، یہ سب سلیکٹرز کا کیا دھرا، یہ سب خلائی مخلوق کا کارنامہ، یہ جیت جعلی، کراچی کنگز کا مینڈیٹ جعلی، ایمپائر ساتھ ملے ہوئے تھے۔
ہماری مرتبہ گراؤنڈ کا سائز بڑا، بال کا سائز چھوٹا کر دیاگیا تھا، جب ہم بیٹنگ کر رہے تھے تو اسٹیڈیم کی لائٹوں میں سے کچھ بلب’ وٹا‘مار کر توڑ دیئے گئے تاکہ ہمیں کم روشنی میں بال نظر آنے میں مشکل ہو ، ہم کراچی کنگز کی جیت کو نہیں مانتے ،ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ سب ہاری ٹیموں کا اجلاس بلا کر پاکستان ڈیفیٹڈ ٹیمز موومنٹ (پی ڈی ایم ) بنا کر باقاعدہ تحریک چلائیں، ہمارا مطالبہ فائنل میچ دوبارہ کروایا جائے اور تب تک کروایا جاتا رہے جب تک ہم جیت نہیں جاتے۔
جو ملکی حالات چل رہے ، کوئی بعید نہیں ،کسی دن کوئی ہارا ہوا کپتان اس قسم کی پریس کانفرنس کر ہی دے، ہماری زندگیوں میں کوئی الیکشن نہیں جسے سب نے شفاف ،منصفانہ مانا ہو، ہارنے والے نے ہار تسلیم کر کے جیتنے والے کو مبارکباد دی ہو ،جیسے ہی کوئی ہارا، رونے دھونے لگ گیا، ہائے مارا گیا، لٹیا گیا، دھاندلی ہوگئی، مینڈیٹ چوری ہوگیا، گلگت بلتستان انتخابات ہی دیکھ لیں ، مسترد شدہ جھوٹے روندو روتے پھر رہے۔
کسی کے پاس دھاندلی کا ثبوت نہیں ، گلگت بلتستان کے چیف الیکشن کمشنر باربار کہہ رہے کسی کو کوئی مسئلہ ہے تو میرے پاس آئے ،مگر اُدھر کوئی نہیں جارہا کیونکہ وہاں گئے تو دھاندلی کے ثبوت دینا پڑیں گے ، گواہ لانا پڑیں گے ، بے ایمانی ،ووٹ چوری ،دھاندلی ثابت کرنا پڑے گی، لہٰذا سب کے سب اپنی لڑائیاں میڈیا پر لڑ رہے، کیونکہ سب کو معلوم یہاں باجماعت باآواز بلند مسلسل جھوٹ بولا جائے تو دوچار دنوں میں جھوٹ سچ ہو جائے۔
کسے معلوم نہیں کہ گلگت بلتستان میں ہمیشہ وہی جماعت جیتتی ہے جس کی اسلام آباد میں حکومت ہو، 2009-10میں زرداری حکومت تھی ،پی پی کو 33میں سے 20نشستیں ملیں تب مسلم لیگ کی 2 سیٹیں تھیں ،2015میں نواز شریف وزیراعظم تھے ،انتخابات ہوئے ،مسلم لیگ 2سیٹوں سے 22سیٹوں پر جاپہنچی اور پیپلز پارٹی 20سیٹوں سے سکڑ کر ایک سیٹ پر آگئی، اس بار حکومت تحریک انصاف کی تھی۔
لہٰذا حسب توقع اور حسب روایت سب سے زیادہ نشستیں پی ٹی آئی کی رہیں ،اس میں اچنبھے کی کیا بات، یہاں یہ بتاتا چلوں ،گلگت بلتستان کی 24 نشستوں پر الیکشن ہو، 6خواتین ممبران اور 3ٹیکنو کریٹ ممبر نامزد کیئے جائیں ،اس طرح کل ممبر 33 ، یہاں یہ بھی بتادوں کہ گلگت بلتستان کے ٹوٹل ووٹر 7لاکھ 45ہزا ر361، اس میں ایک لاکھ 27ہزار نئے ووٹرز مطلب وہ ووٹرز جنہوں نے اس مرتبہ پہلی بار ووٹ ڈالا۔
جہاں اس الیکشن میں بہت بدزبانیاں ہوئیں وہاں کچھ بیانات بڑے مزے کے بھی ، جیسے استور میں تقریر کرتے ہوئے مریم نو از بولیں ’’مجھے ابھی حافظ حفیظ الرحمن نے بتایا ہے کہ استور میں نواز شریف سے اتنی محبت کی جائے کہ جب بچہ پیدا ہو تو اس کا نام نواز شریف رکھا جائے ‘‘لیکن جب استور کا نتیجہ آیا تو دونوں نشستیں پی ٹی آئی نے جیت لیں ،میں سوچ رہا تھا کہ اگر بچوں کے ووٹ ہوتے یقیناً نواز شریف جیت جاتے کیونکہ جہاں پید اہونے والا ہر بچہ نوازشریف ہو وہاں بچوں کے ووٹ ہوں تو کون ہے جو نوازشریف کو ہرا سکے۔
بلاول بھٹو کا ایک بیان بڑا مزے کا تھا کہ ’’ الیکشن جیتنے کے بعد گلگت بلتستان کو سندھ جیسی سہولتیں دیں گے ‘‘،غالباً بلاول بھٹو کا یہی وہ بیان تھا کہ جس سے گلگت بلتستان کے لوگ ڈرگئے، سب نے سوچا ہوگا کہ سندھ والی سہولتوں کا مطلب ہنزہ کا تھر بننا،اسکردو کا گٹر زدہ لاڑکانہ ہونا، گلگت کا کراچی جیسا کوڑے کرکٹ کا ڈھیر ہونا ،نواز شریف نے بھی ایک بڑے مزے کا ٹویٹ کیا کہ ’’ہمارے جلسوں میں اتنی مخلوق اور سیٹیں صرف دو،پھر کہتے ہیں دھاندلی نہیں ہوئی‘‘ یہ توا یسے ہی جیسے لاہور قلندر کا کپتان میچ ہارنے کے بعد کہہ دے’’ ہمیں دیکھنے کیلئے اتنی مخلوق آئے ،پھر بھی ہم ہارجائیں ،یہ تو دھاندلی ‘‘۔
شاہد خاقان عباسی کایہ بیان بھی بڑا لذیذکہ ’’ قبل ازوقت دھاندلی اڑھائی سال سے چل رہی تھی ‘‘ سبحان اللہ ،آپ اڑھائی سال سے سوئے ہوئے تھے،یہ گل افشانی پہلے کیوں نہ کی، ہارنے کے بعد ہی کیوں یہ سب یاد آیا، اگر اڑھائی سال سے دھاندلی جاری تھی تو الیکشن کا بائیکاٹ کر دیتے ،گلگت بلتستان کے سابق لیگی وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کا بیان بھی لچھے دار،کہا’’ پی پی کو پتا چل گیا ہوگا کہ ڈیل کا کیا نقصان ہوتاہے ،پی پی والے سندھ کا کچرا تو صاف نہ کر سکے، یہاں آگئے، سندھ کا سرکاری پیسہ جی بی الیکشن میں خرچہ گیا‘‘۔
اچھا چلو یہ تو عام انتخابات ،لاکھوں ووٹوں کا معاملہ ،دھاندلی کی بات ہو تو بندے کو حیرانی نہیں ہوتی، ہماری سیاست تو ایسی روندو وزیراعظم ،صدر ،اسپیکر ، ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہو ،چند سو ووٹ ہوں ،پھر بھی یہ روئیں دھوئیں ، سازش ہوگئی، ہمارے اتنے ممبران نہیں آئے، سازش ہوگئی، ہمارے اتنے ووٹ مسترد ہوگئے۔
قومی اسمبلی میں فیٹیف بل منظور ہوا تو شاہد خاقان عباسی بولے ہمارے 2 سو ممبران تھے 190ہوگئے، حکومت کے 190 تھے وہ 200 ہوگئے، نجانے یہ کیسے ہوگیا، یہ چھوڑیں، چیئرمین سینیٹ انتخابات ہوں یا سینیٹ چیئرمین عدم اعتماد یا سینیٹ انتخابات، ہر مرتبہ یہ سب روندو روتے دھوتے ہی ملے، ہمارے ممبران توڑ لیے گئے، ہمارے ممبران کو خرید لیا گیا، دھاندلی ہوگئی، مینڈیٹ چرا لیا گیا، مزے کی بات یہ، ہر الیکشن پر یہ روئیں دھوئیں،دھاندلی دھاندلی کریں مگر دھاندلی روکنے کیلئے ،شفاف الیکشن کیلئے کچھ نہ کریں، کوئی اصلاحات نہیں ،کوئی قانون سازی نہیں ، کوئی فول پروف انتظام نہیں ، جیت گئے تو بھنگڑے ،ہارگئے تو رونا دھونا۔
یقین جانئے، اب توانہیں روتے دھوتے دیکھ کر اک کمینی سی خوشی ہو،یہ ایسے بدنیتے ،بنارسی ٹھگ،ان کے نزدیک فوج وہی اچھی جو انہیں اقتدار دلائے، عدلیہ وہی آزاد جوانکے حق میں فیصلے کرے، نیب وہی اچھا جو ان کے مخالفین کو پکڑے، صحافت وہی بے باک جوا ن کے قصیدوں ،خوشامد میں لگی رہے، انتخابات وہی منصفانہ جس میں یہ جیت جائیں ، اب بھلا کوئی ان سے پوچھے ،بنا ثبوت انتخابات کو مسترد کر دینا کیا یہی ووٹ کی عزت ہوتی ہے ،براہ کرم کبھی ہار کر بھی ووٹ کو عزت دےدیا کریں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔