26 نومبر ، 2020
انور عزیز چوہدری بہت سے سیاسی راز سینے میں لئے اِس دنیا سے چلے گئے۔ ہمارے دوستوں میں نصرت جاوید اور عامر متین اُن کے زیادہ قریب تھے لیکن کبھی کبھی وہ مجھ ناچیز کے ساتھ بھی اپنی زندگی کے ایسے واقعات شیئر کر ڈالتے کہ میں حیران رہ جاتا۔
ایک دن چوہدری صاحب نے تنظیم آزادیٔ فلسطین (پی ایل او) کے ساتھ اپنے گزرے دنوں کی باتیں مجھے بتائیں تو میں نے کہا چوہدری صاحب آپ کو سوانح عمری لکھنی چاہئے یا مجھے ایک انٹرویو دینا چاہئے تاکہ یہ تاریخی واقعات محفوظ ہو جائیں۔
چوہدری صاحب مسکرائے۔ اُنہوں نے سگریٹ کا کش لگایا اور کہا کہ میں اپنی زندگی کے کچھ واقعات دنیا کو سنا کر اپنی اولاد کے لئے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتا۔ وہ اپنی ذات کے معاملے میں بہت غیرمحتاط تھے لیکن اپنے خاندان کے لئے بہت محتاط تھے۔
جب اُن کے برخوردار دانیال عزیز وفاقی وزیر تھے اور عدلیہ کے بارے میں غیرمحتاط زبان استعمال کیا کرتے تھے تو کئی دفعہ انور عزیز چوہدری نے مجھے کہا کہ آپ دانیال کو سمجھائیں کہ وہ محتاط رہے، مجھے پتا چلا ہے کہ اُسے نااہل کر دیا جائے گا، پھر دانیال عزیز واقعی نااہل قرار دے دیے گئے۔
انور عزیز چوہدری ذاتی طور پر نواز شریف کے اتنے بڑے فین نہ تھے لیکن جب مسلم لیگ ن نے اُن کی بہو مہناز عزیز کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا تو پھر چوہدری صاحب نے اپنی بہو کی کامیابی کے لئے دن رات ایک کر دیا اور 2018کے انتخابات میں مہناز عزیز کو کامیاب کرایا۔
انتقال سے کچھ دن پہلے اسلام آباد آئے تو اپنے علاقے شکر گڑھ کے کاشتکاروں کے مسائل بیان کرنے لگے اور کہا کہ پنجاب کا کسان بہت پریشان ہے، اگر اِن کسانوں نے گندم اُگانا چھوڑ دی تو پاکستان کہاں سے روٹی کھائے گا؟ میں نے موضوع بدلا اور کہا کہ چوہدری صاحب یہ بتائیں، آپ پی ایل او کے پاس بیروت کیوں گئے اور آپ نے اُن سے فوجی تربیت کیوں لی؟ چوہدری صاحب نے ایک لمبی کہانی سنائی جو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے جنرل ضیاء الحق کے خلاف نفرت سے شروع ہوئی اور چوہدری صاحب کی کچھ گوریلا کارروائیوں پر ختم ہو گئی۔
چوہدری صاحب کو یہ سمجھ آ گئی تھی کہ طاقتور عرب ممالک فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے اور پی ایل او کو لبنان سے بھی نکال دیا جائے گا لہٰذا وہ پاکستان واپس آ گئے۔
پاکستان واپس آکر اُنہوں نے 1985کے غیرجماعتی انتخابات میں حصہ لیا اور رکنِ قومی اسمبلی بن کر جنرل ضیاء سے پرانے حساب کتاب شروع کر دیے۔ ایک طرف وہ محمد خان جونیجو کی کابینہ میں شامل تھے تو دوسری طرف وہ جنرل ضیاء الحق کے راستے میں روڑے اٹکاتے رہتے۔
جنرل ضیاء نے خواجہ محمد صفدر کو اسپیکر قومی اسمبلی بنانے کی کوشش کی لیکن چوہدری صاحب نے فخر امام کو اسپیکر بنوا دیا۔ 10اپریل 1986کو محترمہ بےنظیر بھٹو اپنی جلا وطنی ختم کر کے لاہور آئیں تو اُن کا فقید المثال استقبال ہوا۔
محمد خان جونیجو کو مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنی مقبولیت دکھانے کے لئے 14اگست کو مینارِ پاکستان پر جلسہ کریں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی نے اُسی دن باغ بیرون موچی گیٹ لاہور میں جلسے کا اعلان کر دیا۔ خدشہ پیدا ہو گیا کہ ایک ہی دن ایک ہی شہر میں دو جلسوں کے نتیجے میں کوئی تصادم نہ ہو جائے۔
ایک دن کابینہ کا ایک خصوصی اجلاس بلایا گیا جس میں انور عزیز چوہدری نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ آپ قوم سے خطاب کریں اور اِس خطاب میں اپنا جلسہ ملتوی کرنے کا اعلان کریں اور اپوزیشن سے اپیل کریں کہ وہ بھی اپنا جلسہ ملتوی کر دے۔
چوہدری صاحب کے اِس مشورے پر اجلاس میں موجود آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل اختر عبدالرحمان بہت سیخ پا ہوئے اور اُنہوں نے کہا کہ اِس قسم کے اعلان سے حکومت کمزور نظر آئے گی۔
اِسی اجلاس میں سیکرٹری داخلہ ایس کے محمود بھی موجود تھے۔ اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشن کی کشیدگی کا فائدہ اُٹھا کر دوبارہ مارشل لالگا دیا جائے؟ بہرحال انور عزیز چوہدری کو مارک کر لیا گیا اور اُن کے خلاف کچھ اخبارات میں خبریں شائع کرائی گئیں کہ اُنہوں نے ترقیاتی فنڈز میں گھپلے کئے ہیں۔
اُن خبروں پر انور عزیز چوہدری نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔
وزیراعظم نے اُن کے خلاف انکوائری شروع کرائی۔ انکوائری رپورٹ سامنے آئی تو چوہدری صاحب پر کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہ ہوا۔
اِس دوران افغان پالیسی پر جنرل ضیاء اور جونیجو میں اختلافات پیدا ہو چکے تھے لہٰذا ایک دن جنرل ضیاء نے اپنے ہی لائے ہوئے وزیراعظم کی حکومت پر کرپشن کے الزامات لگا کر اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر دیا۔ یہ وہ موقع تھا جب نواز شریف نے جنرل ضیاء کا ساتھ دیا اور مسلم لیگ (ن) وجود میں آئی۔
انور عزیز چوہدری نے کبھی نواز شریف کے قریب ہونے کی کوشش نہ کی لیکن جب اُن کے برخوردار دانیال نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کا فیصلہ کیا تو چوہدری صاحب نے مخالفت نہیں کی۔ جن دنوں نواز شریف کی تیسری حکومت کے خلاف عمران خان کا دھرنا چل رہا تھا تو اُن دنوں کچھ صحافی اور ٹی وی اینکر عمران خان کے کنٹینر پر اُن کے ساتھ کھڑے نظر آتے تھے۔ اُنہی میں سے ایک ٹی وی اینکر بھی تھے۔
اُنہوں نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں دانیال عزیز کو یہودی ماں کا بیٹا قرار دے ڈالا۔ اِس الزام پر انور عزیز چوہدری کو بہت صدمہ ہوا کیونکہ سیاسی اختلاف کی وجہ سے اُن کے بیٹے کے ایمان پر حملہ کیا گیا تھا۔ دانیال عزیز کی والدہ ایک امریکن کرسچن تھیں جنہوں نے اسلام قبول کیا اور شکر گڑھ میں آ کر پنجابی بولنی بھی سیکھی۔ انور عزیز چوہدری کسی کو کیا بتاتے کہ جس کی ماں کو یہودی کہا جا رہا ہے، اُس کا باپ تو یاسر عرفات کے ساتھ مل کر فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑتا رہا ہے؟ انور عزیز چوہدری صاحب نے اُس اینکر کے خلاف پیمرا اور ایک عدالت میں قانونی کارروائی کی جو ابھی تک چل رہی ہے۔
وہ اینکر جس نے دانیال عزیز کو یہودی ماں کا بیٹا قرار دیا تھا، وہ آج کل اسرائیلی ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیتے پھر رہے ہیں کہ پاکستان کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر لینے چاہئیں۔
یہ عجیب صحافت ہے کہ اگر کسی کو متنازعہ بنانا ہے تو اُسے یہودی ماں کا بیٹا قرار دے دو اور اگر کسی کو خوش کرنا ہے تو پھر علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کی تعلیمات کو فراموش کر کے اسرائیل کی حمایت شروع کر دو۔ میری ذاتی رائے میں یہودی ماں کا بیٹا ہونا کوئی بُری بات نہیں۔
دنیا میں بہت سے یہودی اسرائیلی پالیسیوں کے ناقد ہیں لیکن مسئلہ فلسطین کے حل کے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات وہ لوگ کر رہے ہیں جو کچھ عرصہ قبل تک سیاسی اختلاف یا نفرت کی وجہ سے دوسروں کو یہودی ایجنٹ کہا کرتے تھے۔ جس تیزی کے ساتھ کچھ لوگوں نے اسرائیل پر اپنی پالیسی میں یوٹرن لیا ہے اُسے دیکھ کر خدشہ ہے کہ کہیں آنے والے دنوں میں فلسطینیوں اور کشمیریوں کی حمایت پاکستان میں غداری نہ بن جائے۔ ہم تو اقبالؒ اور قائداعظم ؒ کے پیروکار ہیں۔
انور عزیز چوہدری بھی لاہور میں قائداعظمؒ کے سیکورٹی گارڈ رہے، اُن جیسے لوگ کبھی محبِ وطن نہ بن سکے، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اسرائیل نواز محب وطن بننے سے بچائے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔