03 دسمبر ، 2020
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) ملزمان کو ہراساں اور اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہ کرے، وائٹ کالر کرائم میں دستاویزی شواہد دینا ہوتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں نیب کی جانب سے ملزمان کے خلاف ایک سے زائد ریفرنسز دائرکرنے سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ نیب کو اپنے اختیارات کو غیر جانبداری سے استعمال کرنا ہے، نیب کا 90،90 دن کا ریمانڈ ظلم ہے، نیب ملزمان کو ہراساں نہ کرے اور اختیارات کا غلط استعمال نہ کرے۔
نیب کے وکیل نے عدالت کو بتایا ملزمان کو گرفتار نہ کیا جائے تو وہ تعاون نہیں کرتے، لندن میں ایک اہم سیاسی شخصیت کے خلاف 2، 3 سال سے منی لانڈرنگ کی تحقیقات جاری ہیں، ٹرائل کورٹ کے پاس ریفرنسز کو یکجا کرنے کا اختیار ہے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نے استفسار کیاکہ نیب کے پاس ضمنی ریفرنس دائرکرنےکا اختیار کس قانون میں ہے؟
نیب کے وکیل نے جواب دیا ضمنی ریفرنس سی آر پی سی کے ضمنی چالان کے قانون کے تحت دائرکیے جاتے ہیں، ہائی کورٹس نے تو نیب کے ایک ملزم کے خلاف زیادہ ریفرنسز دائر کرنے سے ہی روک دیا ہے۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نے کہا کہ فوجداری مقدمات میں 40 دن سے زیادہ کا ریمانڈ نہیں ہوتا، 90 دن ریمانڈ تفتیش مکمل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے، نیب تحقیقات مکمل کرکے ایک ہی ریفرنس کیوں داخل نہیں کرتا؟کیا تحقیقات کے لیے نیب افسر تربیت یافتہ نہیں ؟
عدالت عظمیٰ نے حکم دیا ہےکہ تمام فریقین اس معاملے پر تحریری مفروضات جمع کروائیں ، اس کے علاوہ عدالت نے اگلی سماعت پر پراسیکیوٹر جنرل نیب کو بھی طلب کرلیا۔