پاکستان
Time 12 دسمبر ، 2020

موجودہ حکومت کے خلاف دھرنا شریف لوگوں کے کہنے پر ختم کیا تھا، فضل الرحمان

شریف لوگوں نے زبان دی تھی کہ وہ مارچ میں دوبارہ الیکشن کروائیں گے، میں نے ان پر اعتبار کیا لیکن شریف لوگوں نے اپنے وعدے کی پاسداری نہیں کی، سربراہ پی ڈی ایم— فوٹو: فائل

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ میں نے موجودہ حکومت کے خلاف جب دھرنا ختم کیا تھا تو شریف لوگوں کے کہنے پر کیا تھا۔

جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ  میں نے شریف لوگوں کے کہنے پر جلسہ ختم کیا کیونکہ ان شریف لوگوں نے زبان دی تھی کہ وہ مارچ میں دوبارہ الیکشن کروائیں گے۔

مولانا نے مزید کہا کہ میں نے ان پر اعتبار کیا لیکن ان شریف لوگوں نے اپنے وعدے کی پاسداری نہیں کی۔

ان باتوں کا اظہار مولانا نے پروگرام جرگہ میں سلیم صافی سے باتیں کرتے ہوئے کیا۔ 

'کسی وقت کہا گیا تھا کہ دبئی میں میرا ہوٹل ہے، میرا کردار ہے میں نے صاف ستھری زندگی گزاری ہے'

فضل الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہماری تجویز تھی کہ اسمبلیوں میں حلف نہ اٹھایا جائے، ہم مسلسل ایک متفقہ مؤقف دہراتے رہے ہیں،ووٹ عوام کی امانت ہے جس پر ڈاکہ ڈالا گیا '۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 'ملک کی معیشت تباہ ہوگئی، ترقی کاتخمینہ پہلے سال 1.9 اور دوسرے سال صفر پر آگیا، احتساب مشرف کے دور سے چل رہا ہے نیب کا ادارہ مشرف نے قائم کیا ، میں نے اس وقت بھی کہا کیا نیب صرف بینظیر بھٹو، نواز شریف کے وفاداروں کا احتساب کریگا؟'

انہوں نے کہا کہ اب جب دھاندلی زدہ حکومت آئی تو وہ کیسز دوبارہ کھولے گئے، پیپلزپارٹی سندھ میں اکثریت کے باوجود کہتی ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے ،  دکھ ہے کہ شبلی فراز کو خود کو اس درجے میں نہیں لانا چاہیے تھا، نیب کو ایک جانبدار ادارہ سمجھتا ہوں، جھوٹ بول کر آپ کب تک سیاسی مقاصد حاصل کرسکتے ہیں،  چیئرمین نیب کا احترام کرتاہوں وہ بھی دباؤ میں ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 40 سال اس ماحول میں گزارے، کونسی چیز ہے جو ہم سے چھپائی جاسکتی ہے، کسی وقت کہا گیا تھا کہ دبئی میں میرا ہوٹل ہے، میرا کردار ہے میں نے صاف ستھری زندگی گزاری ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 2013 کے الیکشن میں کوئی دباؤ نہیں تھا ، اب تو دھاندلی ہوئی ہے ، اس وقت کوئی سیاستدان جیل میں نہیں تھا، آر ٹی ایس سسٹم فیل نہیں ہوا تھا، لوگوں کوجیل میں ڈال کر، نااہل قرار دے کر آپ نےملک میں الیکشن کرائے، 25 جولائی کوالیکشن ہوا  26جولائی کو سب کا مؤقف آگیا تھا، تب سےایک مؤقف چلاآرہاہے۔

'مذاکرات کیلئے اعتبار کس پر کیا جائے جس کو آپ حکومت کہتے ہیں ہم حکومت نہیں سمجھتے'

فضل الرحمان نے کہا کہ میں نے حکومت کے خلاف جب دھرنا ختم کیا تو شریف لوگوں کے کہنے پر کیا تھا، ان شریف لوگوں نےزبان دی تھی کہ وہ مارچ میں دوبارہ الیکشن کروائیں گے، میں نےان پراعتبارکیا لیکن ان شریف لوگوں نےاپنےوعدےکی پاسداری نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات کیلئے اعتبار کس پر کیا جائے جس کو آپ حکومت کہتے ہیں ہم حکومت نہیں سمجھتے، جو سیاسی قوت نہیں وہ سیاست میں نہ آئے، سیاستدانوں کو آپس میں چھوڑ دیں، ہم تنقید بھی کریں گے گفتگو بھی کریں گے، ہم آئینی راستہ اختیار کررہے ہیں، ہم آئینی راستہ اختیار کررہےہیں ہم بندوق تونہیں اٹھا رہےہیں، عوام میں جارہےہیں، ملک کےتمام معاملات میں اگر کوئی غیرمتعلقہ شخصیت ہے تو وہ عمران خان ہیں۔

فضل الرحمان نے کہا کہ یہ لوگ نہ میری کردار کشی کرسکتے ہیں نہ ان میں ہمت ہے، نااہل لوگ جب حکمران ہونگے تو بجٹ زمین پر آجائیگا، اقتصادی طورپرملک تباہ ہوجاتا ہے۔

'امارات ، بحرین نے کیوں اسرائیل کو تسلیم کیا یہ امت مسلمہ کی رائے نہیں ، یہ صرف بادشاہوں کی رائے ہے'

ان کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب ، امارات، چین کو عمران خان نے ناراض کیا، پاکستان کے دوستوں کی لابی تھی آج ایک دم تبدیلی کیوں آرہی ہے؟ اس کے ارادے اور عزائم کچھ اور ہیں، یہاں پر اسرائیل کو تسلیم کرنا اتنی آسان بات نہیں کہ وہ تر لقمہ سمجھ کرنگل سکے گا، جن عرب ملکوں نے تسلیم کیا ہم اختلاف کرتے ہیں انھوں نے فلسطینی بھائیوں کا خون کیوں بیچا ہے۔

 مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ امارات ، بحرین نے کیوں اسرائیل کو تسلیم کیا یہ امت مسلمہ کی رائے نہیں ، یہ صرف بادشاہوں کی رائے ہے۔

سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ عمران خان کہا کرتا تھا کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے آپ ہوتے کون ہیں فارمولے پیش کرنے والے ، کمشیرکا فیصلہ کشمیریوں کوکرنا ہے پاکستان کا ریاستی رخ ایک طرف، آپ ایک نیا رخ دے رہے ہیں۔

'تجویز پر غور کیا جارہا ہے کہ ہم آئیں دھرنا نہ دیں ،اجتماع کریں اور اس میں استعفے ساتھ لائیں'

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مکالمہ جاری ہے اصولی اتفاق ہوچکا ہے کہ استعفے جمع کیے جائیں، بڑے اعتماد کے ساتھ صورت حال آگے بڑھ رہی ہے یقین ہے کہ اتفاق رائے تک پہنچ جائیں گے، فیصلہ تو یہی ہے کہ جنوری کے آخر یا فروری کے شروع میں اسلام آباد آئیں گے، تجویز پر غور کیا جارہا ہے کہ ہم آئیں دھرنا نہ دیں ،اجتماع کریں اور اس میں استعفے ساتھ لائیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم سے کسی نے رابطہ نہیں کیا اگر ان سے کسی نے رابطہ کیا ہے تو مجھے علم نہیں، حکومت کورونا پر غیر سنجیدہ ہے ، جب ہم جلسہ کرتے ہیں تو کورونا خود کرتے ہیں تو کورونا نہیں، کیا وبا کی اتنی بڑی لہر ہے یا اس کو بڑھا چڑھا کر اس لیے پیش کیا جارہا ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسے کنٹرول کیے جاسکیں۔

مزید خبریں :