16 دسمبر ، 2020
بالی وڈ کے چھوٹے نواب سیف علی خان پٹودی ہندو مذہب کے حوالے سے اپنے بیان پر مشکل میں پھنس گئے حالانکہ ان کا یہ بیان خالصتاً اپنی آنے والی فلم سے متعلق تھا۔
انتہا پسند مودی حکومت میں بھارت میں مسلمانوں کے لیے زمین تنگ ہورہی ہے اور اب معروف شخصیات بھی اس سے محفوط نہیں ہیں۔
حال ہی میں سیف علی خان نے ایک انٹرویو کے دورنا کہا کہ ان کی آنے والی فلم 'آدی پُروش' ایک ایسی فلم ہے جس سے 'راون' شریف النفس ثابت ہوگا اور سیتا کا اغوا بھی صحیح ثابت ہوگا۔
ان کے اس بیان پر ریاست اتر پردیش کے ایک ایڈووکیٹ نے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر سیف علی خان اور فلم کے ڈائریکٹر اوم راؤت پر مقدمہ کردیا ہے۔
سیف علی خان نے اپنے اس بیان پر معذرت بھی کرلی ہے تاہم پھر بھی ان کیخلاف مقدمہ کردیا گیا ہے جس کی سماعت اتر پردیش کے ضلع جان پور کے ایڈیشنل چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں 23 دسمبر کو ہوگی۔
مقدمہ کرنے والے وکیل کا کہنا ہے کہ ہندو دھرم میں رام کو اچھائی کی علامت اور راون کو برائی کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔
سیف نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ 'برائی کے بادشاہ کا کردار ادا کرکے مزہ آیا، لیکن ہم اسے شریف النفس ثابت کریں گے، تفریح کی حد تک یہ ثابت کریں گے کہ سیتا کا اغوا اور رام کے ساتھ لڑائی اس نے اپنی بہن سرپناکھا کا بدلہ لینے کیلئے کیا جس کی ناک لکشمن نے کاٹ دی تھی'۔
سیف کے اس بیان پر ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد نے اعتراض کیا تھا جس میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اعلیٰ رہنما بھی شامل تھے اور اس کے بعد انہوں نے اپنا بیان واپس لے لیا تھا۔
سیف کی یہ فلم اگست 2022 میں ریلیز ہونے کا امکان ہے۔ خیال رہے کہ جب سیف نے اپنے اور کرینہ کے بیٹے کا نام تیمور رکھا تب بھی انتہا پسند ہندوؤں نے اس پر تنقید کی تھی۔