دنیا
Time 27 فروری ، 2021

سعودی عرب نے جمال خاشقجی قتل کیس پر امریکی رپورٹ مسترد کردی

ریاض: سعودی عرب نے  جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے پر امریکی رپورٹ مسترد کردی۔

عرب میڈیا کے مطابق سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ جمال خاشقجی قتل کے معاملے پر امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ منفی، غلط اور ناقابل قبول ہے جسے مسترد کرتے ہیں۔

سعودی وزارت خارجہ کا کہنا ہےکہ امریکی رپورٹ میں غلط معلومات کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔

سعودی وزارت خارجہ کا کہنا ہےکہ جمال خاشقجی قتل میں سعودی حکام نے ملکی قوانین کے تحت ہر ممکن قدم اٹھایا اور بہتر انداز میں تحقیقات کیں تاکہ انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے جب کہ ملزمان کو سعودی عدالت سے مجرم ٹھہرا کر سزائیں بھی دیں جن کا جمال خاشقجی کے اہلخانہ نے خیر مقدم کیا۔

سعودی وزارت خارجہ نے امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ میں  سعودی قیادت اور ملک کے عدالتی نظام پر لگائے گئے الزامات کو یکسر مسترد کردیا۔

واضح رہےکہ امریکا نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے خفیہ انٹیلی جنس رپورٹ جاری کی ہے جو 2 سال پرانی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صحافی جمال خاشقجی کو پکڑنے یا قتل کرنے کے لیے ترکی کے شہر استنبول میں آپریشن کی منظوری دی۔

خیال رہے کہ جمال خاشقجی کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں یہ کہہ کر بلایا گیا تھا کہ وہ اپنی شادی سے متعلق کاغذی کارروائی یہاں مکمل کرسکتے ہیں۔

خاشقجی قتل کیس کا پس منظر

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے منسلک سعودی صحافی جمال خاشقجی 2 اکتوبر 2018 کو ترکی میں استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے سے لاپتہ ہو گئے تھے جس کے بعد ان کو قتل کیے جانے کی تصدیق ہوئی تھی۔

بعد ازاں سعودی عرب کی جانب سے اس بات کا اعتراف کیا گیا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں واقع قونصل خانے میں لڑائی کے دوران ہلاک ہوئے۔

برطانوی میڈیا کے مطابق سعودی صحافی کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاش کو بے دردی سے ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا تھا جبکہ گمشدگی کے چند روز بعد جمال خاشقجی کے جسم کے اعضاء سعودی قونصلر جنرل کے گھر کے باغ سے برآمد ہوئے تھے۔

بعدازاں سعودی عدالت نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 8 ملزمان کو قید کی سزائیں سناتے ہوئے مقدمے کو ختم کردیاتھا تاہم گزشتہ سال مقتول صحافی کے لواحقین نے قاتلوں کو معاف کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد قانون کے تحت سزائیں کم کی گئی تھیں۔

مزید خبریں :