06 اپریل ، 2021
پاکستان کسٹمز کی جانب سے اسمگلنگ کے خلاف کارروائی سست پڑ نے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو اپنا ٹارگٹ پورا کرنا مشکل ہوگیا جبکہ دوسری جانب یہ معاملہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں سے پاکستان کا نام نکالنے میں مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔
گزشتہ مالی سال میں کورونا کی وبا اور لاک ڈاؤن کی وجہ تجارتی اور صنعتی سرگرمیاں گراوٹ کا شکار رہیں لیکن اس کے باوجود ملک میں درآمدی ڈیوٹیوں کی مد میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
اس کی وجہ پاکستان کسٹمز کے اینٹی اسمگلنگ اسکواڈ کی بہترین کارکردگی تھی جسے ایف بی آر کے سربراہ اور وزیر خزانہ سمیت وزیر اعظم پاکستان نے بھی سراہا تھا۔
کسٹمز ذرائع کے مطابق نئے مالی سال کے آغاز میں ہی پاکستان کسٹمز کے اینٹی اسمگلنگ اسکواڈ کی کارروائیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں جس کی وجہ سے ملک بھر کی مارکیٹوں میں اسمگل شدہ اشیاء کی بھرمار ہوگئی ہے۔
خدشہ ہے کہ قانونی ذریعے سے درآمدات کم ہونے سے ایف بی آر کا درآمدی ڈیوٹی سے ہونے والی آمدنی کا ہدف پورا نہیں ہوسکے گا۔
پاکستان کسمٹز کے اینٹی اسمگلنگ اسکواڈ کی رواں برس کارکردگی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2020 کی پہلی سہ ماہی میں ایک ارب 50 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی اشیاء ضبط کرکے ملزمان کو عدالتوں میں پیش کیا گیا۔
اس کے مقابلے میں رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں محض ساڑھے 47 کروڑ روپے مالیت کی اشیاء ضبط کی گئیں۔
اینٹی اسمگلنگ اسکواڈ کے آنکھیں بند کرنے کے نتیجے میں اسمگلروں کی چاندی ہوگئی ہے اور اب تھوک بازاروں میں اسمگل شدہ سگریٹ، چھالیہ، انڈین کتھے اور کپڑے سمیت دیگر اشیاء کھلے عام فروخت ہورہی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے اس صورتحال کا ایک بڑا نقصان ایف اے ٹی ایف میں بھی سامنے آسکتا ہے کیوں کہ اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن ایف اے ٹی ایف کی یہ اہم ترین شرط ہے تاکہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے ذرائع کو روکا جاسکے ۔
یہ سوال اہم ہے کہ اسمگلنگ کے خلاف کارروائیاں اچانک کس کے اشارے پر اور کیوں سست ہوئی ہیں۔