Time 10 جون ، 2021
پاکستان

'ہائے اس زود پشیماں کاپشیماں ہونا' شوکت صدیقی کیس میں جسٹس عمر بندیال کے ریمارکس

سپریم کورٹ میں  اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیےکہ پبلک فورم پر اُس رائے کا اظہار کرنا انتہائی غیر ذمہ دارانہ حرکت تھی۔

سپریم کورٹ میں شوکت عزیز صدیقی کی عہدے پر بحالی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل سہیل محمود نے دلائل میں کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے اداروں کے افسران پر لگائےگئے الزامات من گھڑت بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں۔

برطرف جج شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ اپنے موقف پر میں نے بیان حلفی پر مشتمل جواب جمع کروانے کی کوشش کی،میری اضافی دستاویزات رجسٹرار آفس نے اعتراض لگا کر واپس کردی۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے خودساختہ الزامات عائد کیے، آئین جج کی انکوائری میں اس کو جواب دینے کا حق فراہم کرتا ہے۔ 

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ نے پبلک میں جا کر تقریر کی، آپ نے اپنی تقریر میں عدلیہ کے ادارے پر الزامات عائد کیے اور اسے بد نام کیا،بطور جج حلف اور ضابطہ اخلاق میں شامل ہے کہ آپ عدلیہ کا تحفظ کریں گے۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ محض کسی کو اس کی رائے کی بنیاد پر برطرف نہیں کیا جا سکتا،جسٹس صدیقی کے پاس ثبوت موجود  تھے، 22 جولائی 2018 کو چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھا تھا جس میں کہا تھا کہ ان کے خلاف انکوائری کی جائے، اگر وہ غلط ثابت ہوں تو سزا دی جائے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ کو چیف جسٹس کو خط تقریر کرنے سے پہلے لکھنا چاہیے تھا، تقریر کے بعد خط تو ایسے ہی ہے جیسے" ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا" ۔

 دوران سماعت شوکت عزیز صدیقی بھی اپنی نشست پرکھڑے ہوگئے اورکہا کہ یہ شعر ان کی رائے سے بھی مطابقت رکھتا ہے اور پھر انہوں نے مکمل شعر پڑھ کر سنایا کہ "کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ، ہائے اس زود پشیماں کاپشیماں ہونا" کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

مزید خبریں :