09 جولائی ، 2021
افغان وزیر خارجہ حنیف اتمر نے پاکستان سے امید ظاہر کی ہے کہ وہ طالبان کی ظالمانہ مہم اور حمایت کو روکنے میں ہماری مدد کرے گا۔
جیو نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے افغان وزیر خارجہ حنیف اتمر کا کہنا تھا کہ القاعدہ، ٹی ٹی پی اور دیگر گروپ مل کر افغان حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں، افغان حکام طالبان، القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے درمیان تعلق کو روزانہ کی بنیاد پر دیکھتے ہیں، یہ تعلق بالکل موجود ہے، اس وقت یہ عناصر طالبان کے ساتھ مل کر ہماری حکومت اور عوام کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
حنیف اتمر کا کہنا تھا کہ ہم نے غیر ملکی جنگجوؤں کو تین گروپوں میں تقسیم کر رکھا ہے، ایک وہ جن کا عالمی ایجنڈا ہے جیسے القاعدہ اور داعش، القاعدہ اور داعش اس خطے میں موجود رہے جہاں افغانستان اور پاکستان موجود ہیں، صاف صاف کہوں ہمیں پتہ ہے پاکستان اور افغانستان میں القاعدہ کے رہنما کہاں قتل اور گرفتار ہوئے، القاعدہ اور داعش کی عالمی ترجیحات ہیں۔
افغان وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ القاعدہ اور داعش کے بعد علاقائی کردار ہیں، ٹی ٹی پی، لشکر طیبہ، جیش محمد، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، آئی ٹی آئی ایم، انصار اللہ اور جنداللہ بھی ان میں شامل ہیں، ان سے صرف افغانستان اور پاکستان کو نہیں بلکہ بھارت، چین، روس اور مشرق وسطیٰ سمیت پورے خطے کو خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اسی لیے علاقائی تعاون کی بات کرتے ہیں کہ کوئی اچھا برا دہشتگرد نہیں سب ایک ہیں، افغانستان اور طالبان کا امن یہ یقینی بنائے گا کہ افغانستان ایسے عناصر کے لیے جنت نہیں ہے۔
پاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے افغان وزیر خارجہ حنیف اتمر کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان سے بڑی زیادہ امیدیں ہیں، ہم نے پاکستان کے امن عمل کی حمایت میں پہلے بھی اقدامات کی تعریف کی ہے۔
حنیف اتمر کا کہنا تھا کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ مستحکم باہمی تعلقات کا خواہاں ہے، ہماری پاکستان سے توقع ہے کہ وہ طالبان کی ظالمانہ مہم، سپلائی اور سپورٹ کو روکنے میں ہماری مدد کرے، پاکستان انہیں مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد دے، ہم امید کر رہے ہیں کہ ان امور پر ٹھوس پیشرفت ہو گی۔
امریکا کی جانب سے دھوکہ دینے سے متعلق سوال پر افغان وزیر خارجہ کا کہنا تھا امریکا نے طالبان کے ساتھ نیک نیتی سے امن معاہدہ کیا، لیکن طالبان نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے اور پوری دنیا کو دھوکا دیا۔
افغان وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ طالبان بڑی غلطی کر رہے ہیں، ہم سب نے ان کی طرف امن کے لیے ہاتھ بڑھایا، ہم نے انہیں کہا کہ وہ دوحہ امن معاہدے پر عمل کریں، ہم نے غیر ملکی افواج کے انخلا اور قیدیوں کے حوالے سے اپنا کام کیا۔