14 جولائی ، 2021
سرزمین افغانستان چار دہائیوں سے جنگ و جدل کا شکار ہے۔ دنیا کی ایک بڑی طاقت کی بری طرح ناکامی کے 40 سال بعد دنیاکی بڑی طاقتوں کا اتحاد بھی گزشتہ 20 سال کی جنگ کے بعد یہاں سے ناکام ہو کر لوٹ رہا ہے۔
افغانستان ایک مرتبہ پھر غیر ملکی طاقتوں سے آزاد ہو رہا ہے لیکن کیا اس مرتبہ بھی یہ ملک خانہ جنگی اور اختلافات کا شکار رہے گا یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ موجودہ صورتحال کا تجزیہ کریں تو ماضی کی طرح افغان حکومت اور افغان طالبان میں مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہیں۔
اس مرتبہ ان دونوں فریقین کے درمیان صرف امریکا اور اتحادی نہیں بلکہ اطراف اور خاص طور پر ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے کچھ اہم ممالک بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
افغان امن عمل میں مذاکرات کا دور یہ بتارہا ہےکہ افغان طالبان نے سفارتکاری کا ایک مضبوط اور مربوط طریقہ کار اختیار کیا ہے جس میں ناصرف عالمی طاقتوں کو قائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ اپنے آپ کو مکمل آزادانہ طور پر بااختیار مذاکرات کار کے طور پر شناخت بھی کروایا ہے۔ یہ مذاکرات صرف امریکا، برطانیہ یا نیٹو اتحادیوں سے نہیں بلکہ ایران، پاکستان، بھارت، چین، ترکی، قطر اور دیگر ممالک کو بھی دائرہ کار میں لا چکے ہیں۔
امریکا اور نیٹو اتحادیوں کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد یہ اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ چین کی جانب سے بھی افغانستان کے لئے کوئی اہم پیش رفت نظر آسکتی ہے، یہ خیال ہے کہ چین افغانستان میں فریقین کو قریب بھی لاسکتا ہے اور اپنے بیلٹ روڈ منصوبے میں افغانستان کو شامل کرکے اسے معاشی زاویے سے نئی سمت فراہم کرسکتا ہے۔
ایک طرف ترک افواج کی افغانستان میں امن عمل کے لئے تعیناتی زیر بحث ہے تو دوسری طرف توانائی کے منصوبوں میں وسط ایشیائی ممالک، ایران اور پاکستان بھی افغانستان کے لئے مزید اہمیت اختیار کر جائیں گے۔
خطے میں طاقت کا نیا توازن قائم ہونے جا رہا ہے، ایشیا میں امریکا بھارت، کوریا اور جاپان کا نیا بلاک بھی بین الاقوامی سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے لیکن چین اس معاملے پر بڑا محتاط ہونے کے ساتھ واضح پیغام بھی دے رہا ہے جو چینی صدر کے حالیہ بیان میں بھی نظر آتا ہے۔
خطے کے حالات بہت پیچیدہ اور نازک صورت حال میں ہیں اور جغرافیائی اہمیت کو دیکھیں تو پاکستان اس صورت حال میں اہم ترین ملک ہے جسے دنیا کے بڑے طاقتور ملکوں سے اپنی اہم پوزیشن کو دیکھتے ہوئے معاملات طے کرنے ہیں اور اپنے معاشی مفادات اور قومی سلامتی کومقدم رکھنا ہوگا۔ پاکستان کی جانب سے کئی بار یہ بات کہی جاچکی ہے کہ افغانستان کا مسئلہ افغان فریقین ہی حل کریں گے پاکستان کسی گروپ کی حمایت نہیں کرے گا اور پرامن افغانستان ہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔