13 ستمبر ، 2021
افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد قائم ہونے والی طالبان کی نئی حکومت کی جانب سے خواتین کی تعلیم سے متعلق نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کردیا گیا ۔
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی ایک رپورٹ کے مطابق، گزشتہ روز کابل میں طالبان کی عبوری حکومت کے ہائیر ایجوکیشن کے وزیر عبدالباقی حقانی کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس کے دوران افغانستان میں طالبات کے لیے نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا گیا۔
یونیورسٹیوں کو صنف کے لحاظ سے تقسیم کیا جائے گا : وزیر ہائیر ایجوکیشن عبدالباقی حقانی
پریس کانفرنس کے دوران ہائیر ایجوکیشن کے وزیر عبدالباقی حقانی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں یونیورسٹیوں کو صنف کے لحاظ سے تقسیم کیا جائے گا ، ساتھ ہی طالبات کے لیے نیا ڈریس کوڈ بھی متعارف کروایا جائے گا۔
وزیر عبدالباقی حقانی کے مطابق، ان کی حکومت میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہوگی لیکن خواتین مردوں کے ساتھ تعلیم حاصل نہیں کرپائیں گی۔ ساتھ ہی تعلیمی اداروں میں پڑھائے جانے والے نصاب کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔
1996 سے2001 کےدوران خواتین کو اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم کی اجازت نہیں تھی
خیال رہے کہ اس سے قبل طالبان کی سابقہ حکومت میں خواتین کے لیے خاصے سخت قوانین نافذ کیے گئے تھے جن کے تحت 1996 سے 2001 کےدوران خواتین کو اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم کی اجازت نہیں تھی۔
تاہم اب طالبان کا کہنا ہے کہ وہ خواتین کو تعلیم یا ملازمت کرنے سے نہیں روکیں گے۔
خیال رہے کہ طالبان کے کنٹرول سنبھالنے سے قبل افغانستان میں طالبات کو ڈریس کوڈ کی پابندی نہیں کرنا پڑتی تھی جبکہ یونیورسٹیوں میں بھی مخلوط تعلیمی نظام کا سلسلہ جاری تھا جس کے تحت لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم حاصل کیا کرتے تھے ۔
لوگ مسلمان ہیں وہ اس تبدیلی کو قبول کریں گے :عبدالباقی حقانی
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالباقی حقانی نے کہا کہ ہمیں مخلوط نظام تعلیم ختم کرنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہے، لوگ مسلمان ہیں وہ اس تبدیلی کو قبول کریں گے۔
عبدالباقی کے مطابق، افغانستان میں اب بھی پہلے کی طرح لڑکے لڑکیوں کو پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں بھی علیحدہ علیحدہ پڑھایا جائے گا۔
وزیر ہائیر ایجوکیشن کا مزید کہنا تھا کہ درس گاہوں میں خواتین کو حجاب پہننے کی ضرورت ہوگی تاہم وزیر تعلیم کی جانب سے یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں خواتین کو چہرے ڈھانپنا لازمی ہوگا یا نہیں۔