منی لانڈرنگ: شہباز اور سلیمان کو برطانوی ایجنسی نے جامع تحقیقات کے بعد کلین چٹ دیدی

لندن : برطانیہ کی ویسٹ منسٹر عدالت کے جج  نکولس ریمر نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور انکے بیٹے سلیمان شہباز کیخلاف مشہور زمانہ منی لانڈرنگ کیس میں ان کے کھاتے منجمد کرنے کے احکامات کو کالعدم کرکے کھاتے بحال کر دیئے ہیں۔

برطانیہ کی کرائم ایجنسی (این سی اے) نے عدالت کو بتایا کہپاکستان نے این سی اے سے کہا تھا کہ وہ ریاست پاکستان کو مجرمانہ اثاثوں کی بازیابی میں مدد کرے،تاہم تحقیقات کے نتیجے میں پاکستان کیلئے کوئی ’قابل وصولی جائیداد‘ نہیں ملی۔ یہ کیس دسمبر 2017ء میں حکومت پاکستان کی درخواست پر این سی اے نے دائر کیا تھا۔ کرائم ایجنسی نے بینک اکائونٹس سخت اسکروٹنی سے مشروط کرکے منجمد کئے، پاکستان کے تعاون سے برطانیہ اور امارات میں بھی تحقیقات کی گئیں۔

یہ کیس برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی، پاکستانی حکومت کی درخواست خصوصاً وزیراعظم پاکستان کے آفس کے قائم کردہ ایسٹس ریکوری یونٹ (اے آر یو) کی درخواست پر عدالت لائی تھی، جج نے فریزنگ آرڈر کو اس وقت ختم کیا جب برطانیہ کی ٹاپ اینٹی کرپشن ایجنسی (این سی اے) نے یکطرفہ طور پر جج مسٹر نکولس ریمر کے سامنے شہباز شریف اور سلیمان شریف کے خلاف دو سال طویل ہائی پروفائل تحقیقات کے نتائج رکھے کہ انہیں پاکستان، برطانیہ اور دبئی کے دائرہ کار میں منی لانڈرنگ یا مجرمانہ طرز عمل کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

جنگ اور جیو کی خصوصی رپورٹ کے مطابق 17 دسمبر2019ء کے عدالتی حکم کے بعد سلیمان شریف کے بینک اکائونٹس منجمد کردیئے گئے جبکہ شہباز شاریف کے اکائونٹس کے بارے میں تحقیقات کا آغاز کردیا گیا اور دونوں شخصیات کے اکائونٹس کی ہائی پروفائل کریمنل فرانزنک انوسٹی گیشن کی گئی، جوکہ حکومت پاکستان کی درخواست پر انٹر نیشنل کرپشن یونٹ نے این سی اے انوسٹی گیشن کمانڈ کے کہنے پر کی۔

تحقیقات کے حوالے سے درخواست حکومت پاکستان خصوصاً وزیراعظم آفس میں قائم ایسٹس ریکوری یونٹ (اے آر یو) کی، جن کی درخواست پر ان کے اکائونٹس اس وقت منجمد کردیئے گئے جب حکومت پاکستان نے پاکستان کے مجرمانہ اثاثوں کی بازیابی میں مدد کے لئے برطانیہ کو کہا، جس کے بعد وسیع پیمانے پر تحقیقات کا آغاز شروع ہوا۔

ویسٹ منسٹر مجسٹریٹس کورٹ کی طرف سے اکائونٹس منجمد کرنے کا آرڈر اور نیشنل کرائم ایجنسی کو تحقیقات کی اجازت ملنے کے بعد 19 دسمبر 2019ء کو سلیمان شریف کا بارکلیز اکائونٹ اور شہبازشریف کا ایچ بی ایل یوکے اور بارکلیز کا اکائونٹ ضبط کرلیا گیا اور رقم منجمد کر کے فوری طور پر تحقیقات کا آغاز کردیا گیا۔ رپورٹر نے وہ عدالتی شواہد بھی دیکھے ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیشنل کرائم ایجنسی کے انوسٹی گیٹرزنے شہباز شریف سے ان کے بند بارکلیز کے اکائونٹ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے رضامندی مانگی تھی، بصورت دیگر اس تک پروڈکشن آرڈر کے ذریعے رسائی حاصل کی جاتی، شہبازشریف نے اپنے وکلا کی ہدایت پر رضامندی ظاہر کردی تھی۔

عام طور پر منی لانڈرنگ کے حوالے سے تحقیقات گزشتہ چھ برس تک معاملات تک کی ہوتی ہے لیکن اس کیس میں این سی اے نے اپنے اختیارات کا حد سے زائد استعمال کرتے ہوئے شہبازشریف اور ان کے بیٹے کے تقریبا ً20برس تک کے معاملات کی چھان بین کی، نیشنل کرائم ایجنسی کے انوسٹی گیٹرزنے تحقیقات کا آغاز اس فلیٹ سے کیا جو شہباز شریف نے2004ء میں جلا وطنی کے دور میں ایجوئیر روڈ پر خریدا تھا۔

ان سے مطالبہ کیا گیا کہ رقم کے ذرائع درست ہونے کے حوالے سے شواہد پیش کریں، مارگیج پیمنٹ کی تفصیلات، اکائونٹس میں آنے والی رقوم کے ذرائع، تنخواہیں اور منافع اور پراپرٹی خریدنے کے حوالے سے مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں۔

این سی اے کے تفتیش کاروں نے سلیمان شریف کے ایف بی آر پاکستان میں ظاہر کردہ بارکلیز اکائونٹ سے ٹرانسفر ہونے والی تمام رقوم کا جائزہ لیا جو پاکستان سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی منظوری کے بعد منتقل ہوئیں۔

این سی اے نے آفیشل منی ایکسچینج سے آنے والی تمام رقوم کی رسیدوں کا جائزہ لیا۔ برطانیہ اور پاکستان کی حکومتوں کے ذرائع سے حاصل ہونے والی دستاویز کے مطابق نیشنل کرائم ایجنسی کو 11دسمبر2019ء کو اے آر یو کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس میں شہباز شریف اور سلیمان شریف پر مجرمانہ طرز عمل کا الزام لگایا گیا تھا اور برطانیہ سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ شہبازشریف فیملی کے تمام اثاثے اور فنڈز ضبط کرکے پاکستان کو واپس کریں اور سلیمان شہباز کو ان کی فیملی کے ہمراہ پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ ہوم آفس کو بھی اس معاملے میں شامل رکھا گیا تھا اور اے آر یو نے ہوم آفس کو علیحدہ سے بھی سلیمان شہباز کو پاکستان کے حوالے کرنے کو کہا تھا اور ساتھ ہی ہر مجسٹی ریونیو اینڈ کسٹم (ایچ ایم آر سی) منسٹری سے بھی سلیمان شریف کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔

عدالتی دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ ویسٹ منسٹر مجسٹریٹس کورٹ نے17 دسمبر کو کیس نمبر011902628734اور 011902628947 اور 12 ماہ کی مدت کے دو اے ایف او جاری کئے تھے۔ ایک برس کے بعد8دسمبر2020ء کو این سی او دوبارہ عدالت گئی اور اس نے دونوں اے ایف او میں مزید چھ ماہ توسیع دینے کی درخواست کی۔

ایجنسی نے عدالت میں یہ دلیل دی تھی کہ برطانیہ، پاکستان اور دبئی میں تحقیقات جاری ہیں۔ عدالتی دستاویز کے مطابق سلیمان شہباز نے این سی اے کی جانب سے تین درخواستوں پر عدالت کی طرف سے اے ایف او کی توسیع سے اتفاق کیا اور ان کے وکلا کارٹر رک نے عدالت میں بتایا کہ انوسٹی گیٹرزکے ساتھ تعاون جاری رہے گا۔

10دسمبر2021ء کو نیشنل کرائم ایجنسی نے یکطرفہ طور پر عدالت میں درخواست دیتے ہوئے بتایا کہ شہباز شریف اور سلیمان شریف کے حوالے سے تحقیقات مکمل ہوچکی ہیں اور این سی اے کے کرائم انوسٹی گیٹرزکو برطانیہ سیے پاکستان یا پاکستان سے برطانیہ بھیجی گئی رقوم کے حوالے سے منی لانڈرنگ، دھوکہ دہی یا کسی دوسرے غلط کام کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ ڈسٹرکٹ جج نکولس ریمر نے اے ایف او کو ختم کرتے ہوئے فائنل آرڈر پر دستخط کرتے ہوئے سلیمان شہباز اور ان کے والد کے اکائونتس بحال کردیئے اور رقوم بھی کردی گئیں۔

تاریخی حکم کے بعد حساس نوعیت کی تحقیقات میں ’’شریفس‘‘ حکومت پاکستان اور نیشنل کرائم ایجنسی کی سخت لپیٹ میں رہے۔ این سی اے کے انٹرنیشنل کرپشن یونٹ کے سینئر عہدیدار نے 9دسمبر 2019ء کو نیب لاہور کے ڈائریکٹر جنرل شہزاد سلیم سے لندن میں ملاقات کی اور شہباز شریف اور سیلمان شریف کے خلاف تحقیقات کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔

عدالتی دستاویز کے مطابق شہزاد سلیم نے این سی اے کے عہدیدار کو بتایا کہ شہباز شریف کی دولت میں اس وقت اضافہ ہونا شروع ہوا جب انہوں نے اور انکے بھائی نواز شریف نے 1980ء کی دہائی میں اہمیت اختیار کی۔ جس کے بعد ان کی دولت میں حیرت انگیز شرح سے اضافہ ہوا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ معاشرے میں اپنی حیثیت کے باعث رشوت اور دیگر ذرائع سے کک بیکس حاصل کر رہے تھے۔

نیب لاہور کے عہدیدار نے این سی اے کے عہدیدار کو وسطی لندن میں منعقد میٹنگ کے دوران بتایا کہ ’’شریفس‘‘ نے رقم کی منتقلی کیلئے حوالہ کا نظام استعمال کیا تاکہ دھن سفید ہو اور اسے قانونی شکل دی جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ نیب کی تحقیقات اوورسیز پاکستانیوں کے بنک اکائونٹس میں بڑی تعداد میں ترسیلات زر کی نشاندہی کی ہے۔

اسلئے یہ نیب کا معاملہ ہے، عدالتی دستاویز کے مطابق انہوں نے بتایا کہ شہباز شریف اور فیملی یا ان کی طرف سے کسی نے غیر قانونی فنڈز کی لانڈرنگ کی ہے۔ میٹنگ کے اختتام پر شہزاد سلیم نے پاکستان کی جانب سے برطانیہ کو مدد کی پیشکش کی۔ این سی اے کے عہدیدار نے انہیں بتایا کہ وہ انہیں ای میل بھیجیں گے جن میں پاکستان میں منی لانڈرنگ کے قوانین کے حوالے سے کچھ سوالات ہونگے۔ ایک دن کے بعد ہی این سی اے کے عہدیدار نے لندن میٹنگ کے حوالے سے ای میل بھیجی، جس کے چند گھنٹوں کے بعد ہی اے آر یو کی جانب سے تفصیلی جواب بھیجا گیا۔

رپورٹر نے 11دسمبر 2019ء کو اے آر یو کی جانب سے این سی اے کو بھیجے گئے خط کا جائزہ بھی لیا ہے جس میں وضاحت کی گئی ہے کہ شہباز شریف اور سلیمان شریف کے خلاف کیس کی تحقیقات کا آغاز کیا جائے۔ اے آر او نے این سی اے کو بتایا کہ شہباز شریف پاکستان میں مطلوب ہیں، زیر تفتیش اور ضمانت پر ہیں، اور اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں انہوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ وہ آشیانہ ہائوسنگ اسکیم کیس اور حمزہ شوگر ملز کیس میں بھی ملوث ہیں۔ اس خط میں این سی اے نے سلیمان شریف کے اکائونٹس ضبط کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سلیمان شریف ہی فرنٹ اور پیپر کمپنیوں کے ذریعے جعلی بین الاقوامی ترسیلات زر اور منی لانڈرنگ کا اصل ملزم اور فائدہ اٹھانے والا ہے۔ تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ شہباز شریف اور سلیمان نے ’’کم تنخواہ والے ملازمین کے نام پر فرنٹ کمپنیوں کے ایک نیٹ ورک کی سرپرستی کی تاکہ کرپشن کی آمدنی کو جائز قرار دیا جا سکے‘‘ اور دونوں نے اپنا پیسہ باہر منتقل کرنے کیلئے ’’حوالہ‘‘ کا استعمال کیا۔

حکومت پاکستان نے این سی اے کو مزید بتایا کہ پانامہ گیٹ تحقیقات کے بعد احتساب عدالت پہلے ہی نواز شریف، مریم نوازشریف اور دیگر کو سزائیں سنا چکی ہے اور یہ مقدمات اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کے دائرہ اختیار میں زیر التوا ہیں۔ مزید بتایا گیا کہ شریف خاندان کے مختلف افراد بشمول محمد نواز شریف، مریم نواز شریف، حمزہ شریف، شہباز شریف، اسحاق ڈار اور مسز نصرت شہباز کے حوالے سے ’’کرپشن اور منی لانڈرنگ‘‘ کی تحقیقات جاری ہیں۔ ان افراد کے خلاف شہباز فیملی کے ملکیت کی کمپنیوں کے ذریعے منی لانڈرنگ کا الزام ہے۔ نمائندے نے وہ پوری فائل دیکھی ہے جسے این سی اے نے شہباز شریف اور سلیمان کے خلاف اکائونٹس منجمد کرانے کی غرض سے اے ایف او کے احکامات حاصل کرنے کی غرض سے ویسٹ منسٹر مجسٹریٹس کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

این سی اے نے شہباز شریف اور ان کے بیٹے کی مبینہ طور پر اختیارات کے غلط استعمال اور منی لانڈرنگ اور مجرمانہ طرز عمل کے بارے میں تفصیل سے بتایا انہوں نے اخباری تراشوں پر انحصار کیا، جو منی لاندرنگ کے الزامات پر مبنی تھے اور جو حکومتی وزراء نے پریس کانفرنسوں میں لگائے، ان میں 13جولائی 2019ء کو شائع ہونے والا ڈیوڈ روز کا ایک مضمون بھی شامل تھا جس میں اخبار نے شہباز شریف نے برطانیہ کے سرکاری فنڈز چوری کئے مضمون میں منی لانڈرنگ کے وہی الزامات ہیں جو بعد میں اے آر یو نے این سی اے کے سامنے پیش کئے اور برطانیہ سے کہا کہ وہ تحقیقات کیلئے ڈیلی میل کے مضمون پر انحصار کرے۔

این سی اے نے اے ایف او کرائم ایکٹ 2002ء کی سیکشنز 327، 328 اور 329 کی خلاف ورزیوں کیلئے تحقیقات کی رضا مندی حاصل کی۔ پبلک آفس میں مجرمانہ طرز عمل اور عوام کے پیسہ سے دھوکہ کرنے کی سازش، مجرمانہ جائیداد کو چھپانا، مجرمانہ جائیداد کا حصول، مجرمانہ جائیداد کا استعمال اور ملکیت اور غلط نمائندگی کے ذریعے دھوکہ دہی اور اختیارات کا غلط استعمال، این سی اے کے وکلاء نے 12 ماہ کیلئے فریزنگ آرڈر کی درخواست دیتے ہوئے کہا تھا کہ بالاخر ہمیں یہ ثابت کرنے یا غلط ثابت کرنے کی اجازت دے گا کہ اگر یہ فنڈز مکمل یا جزوی طور پر قابل وصولی جائیداد بناتے ہیں، کہ وہ مجرمانہ طرز عمل سے حاصل کئے گئے ہیں یا غیر قانونی رویئے میں استعمال کیلئے ہیں۔

این سی اے کی درخواست میں اے آر یو کی جانب سے لگائے گئے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اسے 12 ماہ درکار ہیں کیونکہ تحقیقات بین الاقوامی سطح کی ہونگی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران اس حوالے سے پاکستان اور برطانیہ کے تفتیش کاروں کے درمیان جو کچھ ہوا، اس کے بارے میں قانونی ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت پاکستان، اے آر یو اور نیب، این سی او اور برطانوی حکام کو مسلسل یقین دہانی کراتے رہے کہ دونوں شریفوں کو جلد سزا ہو جائے گی۔ شہباز شریف کی گرفتاری کو اس ضمن میں بڑی پیش رفت کے طور پر پیش کیا گیا اور انہیں معمول کے مطابق ہفتہ وار سامنے آنے والے بڑے شواہد کے بارے میں بتایا گیا۔

ذرائع کے مطابق ان یقین دہانیوں کے سبب شاید این سی او توسیع کی درخواستیں دیتا رہا۔ قابل اعتبار قانونی ذرائع کے مطابق این سی او نے جن شبہات کی بنا پر ویسٹ منسٹر مجسٹریٹس کی عدالت میں فریزنگ آرڈر حاصل کرنے کی درخواست دائر کی تھی وہ اسے ثابت نہیں کر سکی اور وہ قانونی نہیں تھی اور پاکستان انویسٹی گیٹرز کو اس بات پر قائل نہیں کرسکا کہ وہ تحقیقات جاری رکھیں۔

ذرائع کے مطابق یہ واحد وجہ تھی جس کے بعد این سی او نے ویسٹ منسٹر مجسٹریٹس کو تحریری طور پر کہا کہ اس کی تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ ’’بازیاب ہونے والی جائیداد‘‘ کا کوئی کیس نہیں ہے۔ اس لئے اثاثوں کو غیر منجمد کرکے کیس کو بند کر دیا جائے۔

مزید خبریں :