19 اکتوبر ، 2012
اسلام آباد…سپریم کورٹ میں اصغرخان کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل عرفان قادر نے بتایا کہ وہ وفاق اور وزارت دفاع کی نمائندگی کررہے ہیں، جس پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے استفسار کیا کہ وہ دستاویز دکھائیں جس میں وزارت دفاع نے آپ کو پیش ہونے کا کہا ہو۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ وقت مختصر ہے مگر عدالت کی بھرپور معاونت کروں گا۔عدالت اور اٹارنی جنرل میں تکرار کمر اعدالت کا ماحول اس وقت گرم ہوگیا جب اٹارنی جنرل نے جسٹس جواد خواجہ کی آبزرویشنز پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جوادخواجہ نے کہا پی پی کی کوئی بھی حکومت معاملے کی انکوائری کرانے میں ناکام رہی، اور پی پی حکومت نے 4 سال میں کچھ نہیں کیا۔ اٹارنی جنرل جنرل کا کہنا تھا کہ فوجی مداخلتوں کی اجازت عدالتیں دیتی رہیں۔ ججز، پی سی او کا حلف اٹھاتے رہے، اس وقت بھی یہ کیس عدالت میں زیر التوا تھا،جسٹس جواد ایس خواجہ کی طرف سے ایسی آبزرویشنز بار بار سامنے آئیں۔ اس پر جسٹس خلجی عارف نے کہا ک آپ کسی جج کا نام نہ لیں یہ بنچ کی آبزرویشنز ہیں، ہم آپ کوقادرکہہ کر نہیں بلاتے،مسٹر اٹارنی جنرل کہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ چلیں میں جج کا نام نہیں لیتا، بنچ کہہ دیتا ہوں، عدلیہ موجودہ حکومت کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہے، موجودہ بنچ متعصب ہے، عدالت کیس کا سارا ملبہ حکومت پر ڈالنا چاہتی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی ذمے داریوں کے مطابق دلائل دیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اصغرخان کیس کی تحقیقات نہ کرانے کی ذمہ داری وفاق پرعائد نہیں ہوتی، اس کیس کی سماعت کیلئے لارجر بنچ بنانا چاہئے تھا۔ اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ کیس سے غیرمتعلقہ اُمورپرتمام ریمارکس حذف کیے جائیں۔ چیف جسٹس نے اسفسار کیا کہ اس کیس سے متعلق کن پر الزامات ہیں، اس میں ادارے ہیں یا انفرادی کردار ہے،14کروڑ روپے یونس حبیب نے دیے،ذمے دار کون ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اعلیٰ سطح پر فیصلے سے تمام ادارہ متاثر ہوتا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیایہ کہنا چاہتے ہیں کہ ادارے شامل تھے، اسلم بیگ نے ادارے کے سربراہ کے طور پر کردار ادا کیا۔اس پر اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ میں نے یہ نہیں کہا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے جو کہا اس کی ریکارڈنگ آپ کو سنادیتے ہیں۔