13 نومبر ، 2021
ملک میں ڈالر مہنگا ہورہا ہے، گذشتہ مالی سال کے اختتام پر ملک میں ڈالر کی قدر 157 روپے 54 پیسے تھی، 12 نومبر کو ڈالر 176 روپے کا بھی ہوا لیکن کاروبار کی بندش پر ایک ڈالر کا بھاؤ 175 روپے 73 پیسے رہا۔
سعودی معاونت پر ملک میں ڈالر کا بھاؤ جو گرا تھا وہ اب پھر بڑھ رہا ہے۔ سعودی عرب سے رقم نہیں ملی اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔ عالمی ادارہ قرض دینے سے پہلے اس کی واپسی یقینی بنا رہا ہے۔ روپے کی قدر گرنے سے درآمدی سامان کی لاگت بڑھے گی استعمال کم ہوگا، اس کا ایک اور فائدہ ڈیوٹیز اور ٹیکسوں کے زیادہ جمع ہونے کا ہوگا لیکن اس سے مہنگائی بڑھے گی جو پہلے ہی حکومت کے لیے درد سر ہے۔
عام اندازے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام میں طلب روکنے کے لیے شرح سود میں بھی اضافہ ہوگا۔ آئی ایم ایف حکومت کی اسٹیٹ بینک سے قرض گیری ختم کراچکا ہے۔ یہ کہہ کر کہ اس سے مہنگائی بڑھتی ہے لیکن مہنگائی تو اب بھی بڑھ رہی ہے۔ حکومت اسٹیٹ بینک سے قرض پر جو سود ادا کرتی تھی وہ اس کے ادارے کے منافع کے طور پر واپس آجاتا تھا،کمرشل بینکوں کو جو گیا وہ گیا۔
ملک کا سب سے بڑا خرچ قرضوں کا سود ہے۔ امریکی معیشت دان تھامس سارجنٹ کی اس پر تھیوری ہے، ’اَن پلیزنٹ مانیٹری ارتھ میٹک‘، لیکن محسوس ہوتا کہ اس پر بات نہیں ہوتی بلکہ فنڈ نے سود ادائیگی کو پرائمری خسارے کا پردہ کرادیا ہے، ہمارا مسئلہ وہ ہمیں سمجھا رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کی ایک شرط اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کی بھِی ہے۔ تقاضہ ہے کہ انہیں فیصلے کا اختیار بھی ہو اور ان کے فیصلوں پر پوچھ گچھ بھی نہ ہو۔ عام خیال ہے کہ ڈالر کا انتظام بھی وہی کرا رہے ہیں۔ ڈالر کا ریٹ بڑھا ہے لیکن زرمبادلہ ذخائر کم نہیں ہوئے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سعودی عرب سے ڈالر جمع کرانے کی اطلاعات ہیں تو ایسے میں کیا طلب و رسد کا ترازو ڈالر کا بھاؤصحیح تول رہا ہے؟