30 نومبر ، 2021
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی درخواست ضمانت پر سماعت کے دوران عدالت میں کسی بھی جماعت کا نام لیے بغیر ہونے والے مذاکرات کا تذکرہ کیا گیا۔
جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ ریاست مذاکرات کرکے لوگوں کو چھوڑ رہی ہے، ہوسکتا ہے کل علی وزیر کے ساتھ بھی معاملہ طے ہوجائے، لوگ شہید ہورہے ہیں،کیا وہاں قانون کی کوئی دفعہ نہیں لگتی؟ کیا عدالت صرف ضمانتیں خارج کرنے کیلئے بیٹھی ہوئی ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا علی وزیرکے الزامات پرپارلیمان میں بحث نہیں ہونی چاہیے؟ علی وزیرنے شکایت کی تھی، اس کا گلہ دورکرنا چاہیے تھا، اپنوں کو سینے سے لگانے کے بجائے پرایا کیوں بنایا جارہا ہے؟ علی وزیرکا ایک بھی الزام درست نکلا تو کیا ہوگا؟ شریک ملزمان کے ساتھ رویہ دیکھ کرگڈ طالبان بیڈ طالبان والا کیس لگتا ہے۔
اس موقع پر پراسیکیوٹر جنرل سندھ نے کہا کہ علی وزیر پر اس طرح کے اور بھی مقدمات ہیں، اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا دیگر کیسز میں ضمانت ہوگئی ہے؟ پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ علی وزیرکی کسی اورمقدمہ میں ضمانت نہیں ہوئی۔
جسٹس سردار طارق نے سوال کیا کہ علی وزیرپردہشتگردی کا مقدمہ نہیں بنتا، وہ دفعہ کیوں لگائی ہے، اس پر علی وزیر کے وکیل نے کہا کہ علی وزیر نے تقاریر میں صرف شکایت کی تھی، ان کی پشتو تقریر پرسندھی پولیس افسرنے مقدمہ کیسے درج کرلیا؟
اس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ریکارڈ سے واضح ہے کہ مقدمہ ترجمہ کرانے کے بعد درج ہوا۔