11 جنوری ، 2022
لیاری گینگ کے سرغنہ عذیر بلوچ سمیت دیگر کی بریت کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک وہ 17 مقدمات میں بری ہوچکا ہے۔
گزشتہ ہفتے عذیر بلوچ اور ان کے ساتھ شیر محمد کو انسداد دہشت گردی عدالت نے 2 رینجرز اہلکاروں کے قتل کیس میں بری کر دیا، عدالتی فیصلے میں پراسیکیوشن کی کارکردگی کو ناقص قرار دیا گیا ہے۔
اس کیس میں عذیر بلوچ کی 90 روز ہ نظر بندی کے دوران اعترافی بیان قلم بند نہیں کرایاگیا، عدالت نے تحریری حکم میں اس خامی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اعترافی بیان ریکارڈ کرانے میں تاخیر اعترافی بیان کی صحت کو مشکوک بناتی ہے لہٰذا ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔
لیاری گینگ وار کا سرغنہ اور کالعدم پیپلزامن کمیٹی کا سربراہ عذیر جان عرف عذیر بلوچ اب تک 17 کیسز میں بری ہوچکا ہے، 6 جنوری کو عذیربلوچ 2 رینجرز اہلکاروں کے قتل کیس میں بری ہوا۔
تحریری فیصلے نے ناقص تفتیشی اور کمزور پراسیکیویشن کے بڑے بڑے دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے، عدالت نے 26 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ مقتول رینجرز اہلکاروں کے اغوا، تشدد اور قتل کیس میں کوئی عینی شاہد موجود نہیں۔
مقتولین کی آخری لوکیشن کا سی ڈی آر ڈیٹا بھی پیش نہیں کیا جا سکا، ایف آئی آر کے مطابق 2 رینجرز اہلکار لیاری 8 چوک سے لاپتا ہوئے تھے، ملزم شیر محمد شیخ کے پولیس کو دیے گئے اعترافی بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
پولیس نے ملزم عذیر بلوچ کے خلاف محض شریک ملزم کے بیان کے علاوہ کوئی تحقیقات نہیں کی، عدالت نے عذیر بلوچ کے اعترافی بیان پر آبزرویشن میں کہا کہ ملزم عذیر بلوچ کا اعترافی بیان اس کیس کے تفتیشی افسر کے ذریعے ریکارڈ نہیں کرایا گیا، عذیر بلوچ کے بیان میں یہ بھی نہیں ہے کہ مقتولین کو کہاں سے اغوا کیا گیا تھا اور عدالت کو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ملزم عذیر بلوچ کا اعترافی بیان کس نے قلم بند کیا۔
جے آئی ٹی رپورٹ عذیر بلوچ کے مؤ قف کی تائید کرتی ہے کہ ملزم شیر محمد شیخ کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے، عذیر بلوچ کے اعترافی بیان کی درخواست کمانڈر نے دی تھی جس کا پراسیکیویشن نے جائزہ ہی نہیں لیا، پراسیکیوشن کی جانب سے پیش کیے گئے شواہد میں کافی تضاد موجود ہے، اس بنیاد پر ملزم عذیر بلوچ اور شیر محمد شیخ کو بری کیا گیا۔
2013 میں2 رینجرز اہلکاروں کے قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، عذیر بلوچ کے خلاف 68 مقدمات درج ہیں۔
رینجرز نے عذیر بلوچ کو جنوری 2016 میں حب کے علاقے سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا جس کے بعد عدالتی حکم پر عذیر بلوچ 90 روز تک رینجرز کی تحویل میں رہا، ملزم کا جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان بھی قلم بند کرایا گیا۔
اس اعترافی بیان کے مطابق ملزم نے بڑے بڑے سیاسی رہنماؤں سے تعلقات اور رابطوں کا انکشاف کیا تھا، عذیر بلوچ کا کیس 12 اپریل 2017 کو آرمی سیکریٹ ایکٹ 1923 کے ملٹری کورٹ میں چلانے کے لیے اسے آرمی کے حوالے کیا گیا، ملزم کے خلاف سیکریٹ ایکٹ 1923 کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ ملیر میں جنوری 2019 سے مارچ 2020 تک مقدمہ چلایا گیا، الزامات ثابت ہونے پر اسے 12 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
عذیر بلوچ پر ملٹری کورٹ کی جانب سے دی گئی سزا کا اطلاق 10 مارچ 2020 سے شروع ہو چکا ہے، اس کے خلاف دیگر فوجداری مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کمزور اور ناقص تفتیش عذیر بلوچ کی رہائی کا سبب بن رہی اور اگر یہی صورتحال رہی تو عذیر بلوچ جلد جیل سے رہا ہو جائے گا۔