15 جنوری ، 2022
گزشتہ سال سائبرکرائم سیل کو سندھ بھر سے آن لائن فراڈ کی 4394 شکایات موصول ہوئیں جن میں کراچی سے 3043، حیدرآباد 811 اور سکھر سے 540 شکایات موصول ہوئیں جب کہ خواتین کو آن لائن ہراساں کرنے کے 2194 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں کراچی سے 1244، حیدرآباد 260 اور سکھر سے 690 شکایات درج کی گئیں۔
جیو ڈیجیٹل سے گفتگو کرتے ہوئے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سندھ کے سربراہ عمران ریاض نے بتایا کہ خواتین کو آن لائن ہراساں کرنے کے واقعات میں سائبر بلنگ اور اسٹاکنگ وغیرہ بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عموماً فیس بک، بیگو لائیو، اسنیپ چیٹ اور انسٹاگرام سے ہی زیادہ شکایات موصول ہوتی ہیں لیکن کسی ایک سوشل میڈیا ایپلی کیشن کے حوالے سے نہیں کہا جاسکتا کہ سب سے زیادہ شکایات یہاں سے موصول ہوئیں، بہت سے متاثرہ افراد عدالت کے چکر اور بات بڑھانے کے ڈر سے شکایت درج نہیں کرواتے جس کی وجہ سے رجسٹرڈ شکایتوں کی تعداد کم ہے۔
اکاؤنٹس ہیکنگ اور آن لائن فراڈ عام ہوگیا
سوشل میڈیا پر موصول ہونے والے لنکس، غیر ضروری اور غیر اخلاقی میسجز کا موصول ہونا، اکاؤنٹس ہیک ہونا یا آن لائن فراڈ عام ہوتا جارہا ہے۔
کراچی کے رہائشی طالب علم محمد اسامہ بھی ان ہی متاثرین میں شامل ہیں جنہیں آن لائن فراڈ کا سامنا کرنا پڑا، حال ہی میں انہیں سائبر حملے سے مالی نقصان اٹھانا پڑا،گزشتہ سال دسمبر میں انہیں لنکڈ ان اکاؤنٹ پر میسج موصول ہوا جس میں گیرتھ بینیک نامی صارف کی جانب سے انہیں ڈیویلپر کی ملازمت کی پیشکش کی گئی۔
اسامہ کو مائیکروسافٹ ٹیمز گروپ پر ایڈ ہونے کے بعد مختلف کلاؤڈ اکاونٹس بنانے کا کہا گیا اور بڑی چالاکی کے ساتھ ان کا بینک اکاؤنٹ، کریڈٹ کارڈز وغیرہ اس کے ساتھ منسلک کرائے گئے، جعل ساز کی جانب سے کہا گیا کہ تفصیلات رسمی کارروائی کے لیے مانگی جارہی ہیں جب کہ ان کے اکاؤنٹ سے کسی قسم کی ادائیگی نہیں کی جائے گی۔
اسامہ نے بتایا کہ تفصیلات دینے کے بعد انہیں کم بیلنس کی وجہ سے اکاؤنٹ معطل ہونے کا نوٹی فکیشن موصول ہوا جب کہ اگلے دو دن کے اندر بینک اکاؤنٹ سے ایک ہزار ڈالر سے زائد رقم کی ٹرانزکشن کی گئی، بینک کی جانب سے موصول ہونے والے پیغام سے انہیں اکاؤنٹ ہیک ہونے کا علم ہوا۔
انہوں نے کہا کہ معاملے کا پتا چلتے ہی بینک سے رابطہ کرکے کریڈٹ اور اے ٹی ایم کارڈز بند کرائے گئے اور چند دن پہلے سائبر کرائم سیل میں آن لائن شکایت بھی درج کرائی۔
ڈیجیٹل دور میں داخل ہونے کے ساتھ سائبر سکیورٹی سے واقف ہونا اب وقت کا تقاضہ ہے اور ایسے میں کس طرح خود کو ان سائبر حملوں سے بچایا جائے ؟
جیو ڈیجیٹل نے سائبر سکیورٹی کے ماہر ناظم خان سے رابطہ کرکے اس حوالے سے بات چیت کی تو انہوں نے صارفین کی وہ چند غلطیاں بتائیں جن کی وجہ سے نا صرف سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیک ہوسکتے ہیں اور بلیک میلرز یا جعل ساز اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوسکتے ہیں۔
ناظم کے مطابق درج ذیل غلطیاں ہیکرز یا جعل سازوں کو ان کے مقصد میں کامیاب بناتی ہیں۔
1: بنا تصدیق کے کسی بھی ایپلی کیشن کو انسٹال کرنا ہیکرز کو کھلی دعوت دینا ہے، اکثر ہیکرز ایسی ایپلی کیشنز خود بھی بناتے ہیں جن کے ذریعے اکاونٹس تک رسائی حاصل کی جائے ۔
2:جعلی اکاؤنٹ کی آپ کے پاس موجودگی بھی اکاونٹ ہیک ہونے کی وجہ بن سکتی ہے کیونکہ جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے آپ کی سرگرمیوں کو مانیٹر کیا جاتا ہے، بالخصوص فیس بک اور انسٹاگرام کےذریعے آپ کے پاس ورڈز کا بھی پتا لگایا جاسکتا ہے۔
3: آسان یا عام الفاظ پاس ورڈ، مثلاً تاریخ پیدائش، فیملی کا نام یا کوئی بھی آسان نمبراکاؤنٹ ہیکنگ میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
4: اینٹی وائرس سافٹ ویئر استعمال نہ کرنا یا بغیر لائسنس کے استعمال کرنا بھی اکاؤنٹ ہیکنگ کی ایک وجہ ہے کیونکہ لائسنس کے بغیریہ سافٹ ویئر اپ ڈیٹ نہیں کیے جاسکتے۔
ہیکرز کس طرح آپ کے واٹس ایپ، فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کرتے ہیں؟؟
ان حملوں کے ذریعے آپ کا ڈیٹا، لاگ اِن تفصیلات، کریڈٹ کارڈ کی معلومات وغیرہ حاصل کی جاتی ہیں یہ کام لنکس اور انسٹنٹ میسجز بھیج کر کیا جاتا ہے۔
آئی ڈی پاس ورڈ کے ذریعے یوٹیوب اکاؤنٹ کے ساتھ آپ کی آمدنی بھی ہیکرز کا آسان شکار ہوسکتی ہے، نا صرف یہ بلکہ گوگل ڈرائیو اور فوٹوز تک پہنچنا بھی ان کے لیے مشکل بات نہیں۔
البتہ واٹس ایپ ہیک کرنے کے لیے موبائل فون کی فیزیبلیٹی درکار ہوتی ہے، فون ہیک کرنے کے بعد واٹس ایپ نمبر حاصل کرکے کسی دوسرے فون پر اکاؤنٹ بنالیا جاتا ہے یہاں تک کے ایپلی کیشن کی جانب سے بھیجا گیا او ٹی پی آپ کے دیکھنے سے پہلے کاپی کرکے ڈیلیٹ کردیا جاتا ہے اور آپ کے اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کرلی جاتی ہے۔
ناظم خان کے مطابق ان حملوں سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو محفوظ کرنے کے لیے سمبلز اور نمبرز کے ساتھ کم از کم 8 کریکٹرز پر مبنی پاس ورڈ رکھا جائے، کسی سے بھی اپنی آئی ڈی اور پاس ورڈ کی تفصیلات شیئر نہ کریں جب کہ ہر 3 سے 4 ماہ میں پاس ورڈ تبدیل کرنا بھی ضروری ہے، صارفین آن لائن کمائی جانے والی رقم کھونے سے بچنے کے لیے پرسنل ای میل ایڈریس کو بینک اکاؤنٹ سے لنک کرنے سے گریز کریں۔
ان حملوں کے خلاف سائبر کرائم سیل میں آن لائن شکایت بھی درج کروائی جاسکتی ہے۔
ڈی جی ایف آئی اے کے مطابق گزشتہ سال سائبر کرائم میں ملوث 1300 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔