Time 20 جنوری ، 2022
پاکستان

بیان حلفی کیس میں رانا شمیم پر فرد جرم عائد

اسلام آباد ہائیکورٹ نے بیان حلفی کیس میں رانا شمیم پر فرد جرم عائد کر دی۔

چیف جسٹس اسلام آباد اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کے دوران فرد جرم پڑھ کر سنائی۔

دوران سماعت رانا شمیم نے استدعا کی کہ توہین عدالت کی فردجرم کے بجائے حقائق جاننے کیلئے انکوائری کی جائے۔

اس پر چیف جسٹس اسلام آباد اطہرمن اللہ نے کہا کہ رانا صاحب آپ ماشاء اللہ چیف جج رہ چکے ہیں، آپ نے بھی توہین عدالت کے کیسز سنے ہوں گے۔رانا شمیم نے کہا کہ میں نے کبھی توہین عدالت کا کیس نہیں سنا، میں اس پریقین نہیں رکھتا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ چارج فریم کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ کو موقع ملے گا، آپ کا الزام اس کورٹ سے متعلق ہے۔

رانا شمیم نے کہا کہ میں تو آپ اور جسٹس عامر فاروق کے سامنے پیش ہوتا رہا ہوں، میں اور اٹارنی جنرل کے والد صاحب اکٹھے پریکٹس کرتے رہے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیوں پہلے دن سے میرے خلاف ہیں؟

 چیف جسٹس نے کہا آپ سے پوچھا تھا کہ کیا نوٹری پبلک کے خلاف آپ نے کوئی کارروائی شروع کی؟ ہم آپ پر چارج فریم کر رہے ہیں، اپنے دفاع میں کچھ کہنا چاہتے ہیں تو تحریری طور پر جمع کرائیں، چیف جسٹس نے الزامات کی فرد جرم پڑھ کر سنائی، فرد جرم میں کہا گیا تھا کہ آپ نے انگلینڈ میں بیان حلفی ریکارڈ کرایا، آپ نے کہا چیف جسٹس ثاقب نثار چھٹیوں پر گلگت بلتستان آئے تو انہوں نے فون پر رجسٹرار اور اس کورٹ کے جج کو ہدایات دیں کہ نواز شریف اور مریم نواز الیکشن سے پہلے باہر نہیں آنے چاہئیں، بیان حلفی کے مطابق آپ ان سے پوچھا کہ ایسی ہدایات کیوں دیں توثاقب نثار نے جواب دیا کہ پنجاب اور گلگت بلتستان کی کیمسٹری مختلف ہے۔

 فرد جرم میں مزید کہا گیاکہ بیان حلفی کو نوٹرائزڈ کرایا گیا جو میڈیا تک پہنچا، بیان حلفی 15نومبر کو دی نیوز اور جنگ میں شائع ہوا، آپ نے جواب میں کہا کہ بیان حلفی نوٹرائزڈ کرا کے سیل کیا اور نواسے کے حوالے کیا تھا، ہو سکتا ہے کہ بیان حلفی نوٹری پبلک سے لیک ہوا ہوگا، آپ نے نوٹری پبلک اور انصار عباسی کے خلاف کوئی کارروائی شروع نہیں کی،  آپ نے عدالت کو سکینڈلائز کرنے اوراپنے کنڈکٹ سے زیر التوا کیس پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی، آپ کو اوپن کورٹ میں تمام الزامات پڑھ کر سنا دیے گئے ہیں، اس پر آپ کیا کہتے ہیں؟

 رانا شمیم نے کہاپہلے آپ الزامات کی فرد جرم کی کاپی مجھے دیں، کچھ باتیں تسلیم کرتا ہوں اور کچھ نہیں،چیف جسٹس نے پھر پوچھا کہ آپ الزام تسلیم کرتے ہیں یا نہیں؟ جس پر رانا شمیم نے الزامات کی صحت جرم سے انکار کیا۔

 اس سے قبل سماعت شروع ہوئی تو رانا شمیم، انصار عباسی اور ایڈیٹر انچیف دی نیوز عدالت میں پیش ہوئے جب کہ دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری کی جانب سے حاضری سے استثنا کی درخواست پیش کی گئی, اٹارنی جنرل بطور پراسیکیوٹر عدالت میں پیش ہوئے۔

 چیف جسٹس نے کہا اس کورٹ کی بہت بے توقیری ہو گئی ہے یا آپ بتا دیں کہ اس عدالت کے ساتھ کسی کو کوئی پرابلم ہے, اس عدالت کے حوالے سے ہی تمام بیانیے بنائے گئے ہیں, اس آئینی عدالت کے ساتھ بہت مذاق ہو گیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر روسٹرم پر آئے اور استدعا کی کہ اٹارنی جنرل اور عدالتی معاونین کی رائے کے مطابق صحافیوں کی حد تک فرد جرم کی کارروائی مؤخر کی جائے, آپ نے جو محتاط رویے کی بات کی تھی اس کو بھی مستقبل میں دیکھا جائے گا۔

پی ایف یو جے کے سابق صدر افضل بٹ بھی روسٹرم پر آگئے اور کہا ہم زیر سماعت کیسز پر رپورٹنگ اور تبصرے کے حوالے سے مختلف میٹنگز کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا عدالت ایک لائسنس نہیں دے سکتی کہ کوئی بھی سائل آ کر اس طرح عدالت کی بے توقیری کرے، آپ کو احساس تک نہیں کہ زیر سماعت کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی، یہ عدالت اوپن احتساب پر یقین رکھتی ہے اور اسے ویلکم کرتی ہے۔جولائی 2018 سے لے کر آج تک وہ آرڈر ہوا ہے جس پر یہ بیانیہ فٹ آتا ہو؟ ایک اخبار کے ایک آرٹیکل کا تعلق ثاقب نثار سے نہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ ہے،لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اس کورٹ کے ججز کمپرومائزڈ ہیں، ایک کیس دو دن بعد سماعت کے لیے فکس تھا جب اسٹوری شائع کی گئی۔

سینئر صحافی افضل بٹ نے کہا یہ بات حلف پر کہنے کو تیار ہوں کہ صحافی اس کورٹ پر مکمل یقین رکھتے ہیں،ہم سمجھتے ہیں یہ کورٹ آخری امید ہے۔

چیف جسٹس نے کہا اگر کوئی غلطی تھی تو ہمیں بتا دیں ہم بھی اس پر ایکشن لیں گے، پی ایف یو جے کے جنرل سیکرٹری،سینئر صحافی ناصر زیدی نے کہا مجھے بھی کچھ کہنے کی اجازت دی جائے، اس پروسیڈنگ سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے،کورٹ پروسیڈنگ کی کوریج کے دوران احتیاط کرنی چاہیے، توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے سے دنیا بھر میں غلط میسج جائے گا، عدالت خود آزادی اظہار رائے کے حق میں ہے، یہ ہمارے لیے سیکھنے کا عمل ہے، ہم نے ملٹری کورٹس کا سامنا کیا اور آج آزاد عدلیہ کا سامنا کر رہے ہیں، ہم نے میٹنگز کی ہیں اور کورٹ رپورٹنگ کے حوالے سے کوڈ آف کنڈکٹ بنا رہے ہیں۔

 چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ کو کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں، ہم پہلے بھی کہہ چکے کہ ان کا ثانوی کردار ہے،کل کو کوئی بھی تھرڈ پارٹی ایک کاغذ دے گی اور اس کو ہم چھاپ دیں گے تو کیا ہو گا؟ اتنا بڑا اخبار کہے کہ انہوں نے اس حوالے سے کوئی قانونی رائے نہیں لی تو پھر یہ زیادتی ہو گی۔

چیف جسٹس نے ناصر زیدی کو مخاطب کرکے کہاآپ نے تو خود کوڑے بھی کھائے ہیں، اسی وجہ سے آپ کو بھی آزادی ملی، یہ بتائیں کہ کوڑا زیادہ زور سے لگتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا آزادی اظہار رائے نہیں ہو گی تو آزاد عدلیہ بھی نہیں ہو گی، انصار عباسی کو میں بیس سال سے جانتا ہوں، ان کی integrity پر کوئی شک نہیں، لوگوں کے ہاتھوں میں بھی کھیلا جاتا رہا ہے، میرا concern صرف اپنی عدالت سے ہے، بیان حلفی کا لب لباب یہ ہے کہ یہ کورٹ کمپرومائزڈ تھی، اتنا ہائی پروفائل کیس سماعت کے لیے مقرر تھا، یہ سمجھا جائے گا کہ اخبار کو اس متعلق علم تھا۔

اٹارنی جنرل نے کہاآج پہلی بار میڈیا کی طرف سے اظہار ندامت ضرور ہے، میری استدعا یہ ہے کہ رانا شمیم کے ساتھ میڈیا پرسنز کو بھی فیئر ٹرائل کا مکمل حق ہے، استدعا یہ ہو گی کہ توہین عدالت کی کارروائی ختم نہیں بھی کرنی تو میڈیا کی حد تک فرد جرم کی کارروائی مؤخر کی جائے، میری مودبانہ درخواست ہو گی کہ رانا شمیم پر چارج فریم اور باقیوں کی حد تک چارج مؤخر کیا جائے۔

عدالتی معاون فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا صحافتی تنظیم نے بڑی اچھی بات کی ہے، یہی بات میڈیا پرسنز بھی کر دیں، ان کی طرف سے بھی ایسا جملہ آنا چاہئیے کہ وہ آئندہ مزید محتاط رہیں گے، اس کیس کی جس طرح میڈیا میں رپورٹنگ ہو رہی ہے وہ بھی subjudice رول کے خلاف ہے،  جس اخبار کی پروسیڈنگز چل رہی تھیں اسی اخبار نے عالمی تنظیموں کے بیانات بھی چھاپے۔

 چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے خلاف تو کسی نے کچھ نہیں کہا؟ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ عدالتی معاون ریما عمر کے بارے میں کچھ باتیں کی گئی ہیں۔

 چیف جسٹس نے کہا ریما عمر نے عدالت کی بہت اچھی معاونت کی ہے، فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا بیان حلفی کی انکوائری پہلے کروا لیں جس کی اٹارنی جنرل نے مخالفت کی تاہم عدالت سے استدعا کی کہ میڈیا کے تین صاحبان صرف ناصر زیدی صاحب کی بات سے اتفاق کر لیں تو ان کی حد تک چارج ڈراپ کر دیا جائے۔

 عدالت نے رانا شمیم کو مخاطب کر کے کہا آپ نے دو درخواستیں دائر کی ہیں، وہ درخواستیں کیا ہیں؟ رانا شمیم روسٹرم پر آ گئے اوراپنی متفرق درخواست پڑھ کر سنائی۔

 عدالت نے پراسیکیوٹر کی تبدیلی اور توہین عدالت کی فردجرم عائد کرنے سے پہلے بیان حلفی کی انکوائری کرانے کی درخواستیں مسترد کر دیں اور صحافیوں کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی مؤخر کرکے کیس کی مزید سماعت 15 فروری تک ملتوی کردی گئی۔

مزید خبریں :