دنیا
Time 22 جنوری ، 2022

سابق ملازمین کا فیس بک سے بھارت میں انسانی حقوق کے اثرات پر رپورٹ جاری کرنے کا مطالبہ

فیس بک نے 2020 میں قانونی فرم فولے ہوگ کو بھارت میں میں اس کے اثرات کا آزادانہ جائزہ لینے کے لیے ایک کمیشن بنایا تھا لیکن اس کی رپورٹ کو جاری کرنے میں تاخیر کی گئی۔ —فوٹو: فائل
فیس بک نے 2020 میں قانونی فرم فولے ہوگ کو بھارت میں میں اس کے اثرات کا آزادانہ جائزہ لینے کے لیے ایک کمیشن بنایا تھا لیکن اس کی رپورٹ کو جاری کرنے میں تاخیر کی گئی۔ —فوٹو: فائل 

فیس بک کے سابق ملازم فرانسس ہوگن اور دیگر نے کمپنی سے بھارت میں اس کے اثرات کے بارے ایک رپورٹ جاری کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق فیس بک کمپنی ( میٹاورس) میں کام کرنے والے سابق ملازم فرانسس ہوگن اور دیگر 20 آرگنائزیشنز نے کمپنی پر الزام لگایا ہے کہ کمپنی جان بوجھ کر اس رپورٹ کو جاری نہیں کررہی جس میں مبینہ طور پر بھارت میں نفرت انگیز تقریر اور تشدد کو ہوا دینے میں کمپنی کے کردار کے بارے میں بتا یا گیا ہے۔

اس گروپ نے 3 جنوری کو فیس بک کی انسانی حقوق کی ڈائریکٹر مرانڈا سیسن کو ایک خط بھیجا، جس میں کہا گیا ہے کہ یہ رپورٹ بھارت میں انسانی حقوق کا اہم عنصر ہے اور اسے کم از کم پبلک کیا جانا چاہیے۔

دوسری جانب دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ظفر الاسلام خان نے فیس بک کے ناقدین کی طرف سے منعقدہ ایک پریس بریفنگ میں بات کر تے ہوئے کہا کہ 'سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر نفرت کے نتیجے میں بھارتی مسلمانوں کو عملی طور پر غیر انسانی اور بے بس اور بے آواز بنا دیا گیا ہے'۔

واضح رہے کہ فیس بک نے 2020 میں قانونی فرم فولے ہوگ کو بھارت میں میں اس کے اثرات کا آزادانہ جائزہ لینے کے لیے ایک کمیشن بنایا تھا لیکن اس کی رپورٹ کو جاری کرنے میں تاخیر کی گئی۔

نومبر میں مختلف حقوق گروپوں نے وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا کہ سوشل میڈیا کمپنی نے رپورٹ کے مسودے کا دائرہ کم کر دیا ہے اور اسے جاری کرنے کے عمل میں تاخیر کر رہی ہے۔

بھارت میں فیس بک پر نفرت انگیز تقریر کس طرح چلتی ہیں اس کے بارے میں مزید معلومات کے لیے بے چینی اس وقت شدت اختیار کر گئیں جب 2021 میں فرانسس ہوگن نے کمپنی کے اندرونی دستاویزات کو لیک کیا جس میں بتایا گیا کہ کمپنی کس طرح بڑے ممالک میں نفر انگیز مواد کی نگرانی کرنے میں مشکلات کا سامنا کررہی ہے۔

ان دستاویزات میں انکشاف کیا گیا تھا کہ کس طرح بھارت میں صارفین جعلی خبروں، نفرت انگیز تقاریر بشمول مسلم مخالف پوسٹس اور انتخابات میں مداخلت کرنے والی معلومات سے متاثر تھے۔

اس کے علاوہ دستاویزات میں اس بات پر بھی زور دیا گیا تھا کہ کمپنی اپنی بڑی غیر انگریزی مارکیٹوں کے لیے متناسب وسائل مختص نہیں کرتی ہے۔

ہوگن نے اپنے کاغذات اور کانگریس کے سامنے گواہی میں انکشاف کیا تھا کہ فیس بک نے اپنے  غلط معلومات کے عالمی بجٹ کا صرف 13 فیصد غیر امریکی ممالک کے لیے مختص کیا ہے۔

بھارتی انسانی حقوق کی کارکن اور صحافی تیستا سیٹلواد نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اس طرح کے فنڈنگ ​​کے مسائل خاص طور پر بھارت جیسے ممالک میں سخت ہیں، جن کی 22 سرکاری زبانیں ہیں۔

انہوں نے کہاکہ فیس بک بغیر چیک کیے لوگوں کو اکسانے والے مواد کی اجازت دیتا ہے جو بھارت میں اقلیتوں، دلتوں اور خواتین کو نشانہ بنانے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔

اس کے علاوہ فیس بک کی انسانی حقوق کی پالیسی کی ڈائریکٹر مرانڈا سیسن نے ایک بیان میں کہا کہ اس کام کی پیچیدگی کو دیکھتے ہوئے، ہم چاہتے ہیں کہ یہ جائزے مکمل ہوں۔ ہم سالانہ رپورٹ کریں گے کہ ہم انسانی حقوق کی پالیسی کے مطابق انسانی حقوق کے اثرات سے کیسے نمٹ رہے ہیں۔

مزید خبریں :