12 فروری ، 2022
اسلام آباد: جمعرات کو وزیروں کی کارکردگی کے حوالے سے کیے گئے اعلانات پر سرکاری حلقوں میں اتھل پتھل مچ گئی تھی لیکن یہ پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے کابینہ کی منظوری سے متعارف کرائی گئی سب سے بڑی اصلاحات ہیں۔
ان اصلاحات کے تحت، وزیراعظم نے ہر وزیر کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جس کے تحت وقتاً فوقتاً مخصوص اہداف اور مقاصد کی نگرانی ہونا تھی۔ وزیراعظم کی جانب سے جمعرات کو جاری کردہ نتائج اس نگرانی کا نتیجہ تھے جو ارباب شہزاد کی قیادت میں ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور سیکریٹری فنانس پر مشتمل جائزہ کمیٹی کے تحت کی گئی۔
کچھ وزیروں نے پس پردہ بات چیت کے دوران کہا ہے کہ غیر منتخب افراد پر مشتمل جائزہ کمیٹی کس طرح کابینہ کے ارکان کی کارکردگی کا جائزہ لے سکتی ہے۔ 10؍ بہترین افراد کی کارکردگی فہرست میں جن لوگوں کو جگہ نہیں ملی وہ وزیروں کو دیے گئے نمبروں کے طریقہ کار پر سوالات اٹھاتے نظر آتے ہیں۔
ایک وزارتی ذریعے کا کہنا تھا کہ شہزاد ارباب کی زیر قیادت کمیٹی نے وزیروں کو نہیں بتایا کہ کارکردگی کا جائزہ لینے کا طریقہ کار کیا ہے۔ ایک اور وزیر نے شکایت کی کہ ’’کارکردگی‘‘ کے حوالے سے 70؍ نمبر رکھے گئے تھے جن کی بنیاد پر کچھ اہداف طے کیے گئے تھے جب کہ باقی 30؍ اہم ترین نمبر جائزہ کمیٹی کے جائزے کیلئے رکھے گئے تھے۔
ایک اور وزیر کا کہنا تھا کہ شیریں مزاری اس لئے دکھی ہو گئیں کہ انہیں فہرست میں جگہ تو ملی لیکن اعلیٰ مقام پر نہیں ملی کیونکہ جائزہ کمیٹی نے انہیں خراب نمبر دیے تھے۔
ایک وزیر کا کہنا تھا کہ کابینہ میں کچھ ساتھی لطیفہ سنا رہے تھے کہ اسد عمر کو اس لئے فائدہ ملا کیونکہ ان کی وزارت کے اعلیٰ عہدیدار کو جائزہ کمیٹی کا رکن بنایا گیا ہے۔
رابطہ کرنے پر شہزاد ارباب نے کہا کہ حکومت کے پاس صرف دو آپشن تھے۔ کچھ نہ کرو یا پھر تبدیلی لاؤ۔ انہوں نے کہا کہ ہم تبدیلی لائے اور سب کی کارکردگی کا جائزہ منظم انداز سے لیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جائزہ رپورٹ سے یقیناً کئی لوگ ناراض ہوئے ہوں گے لیکن یہ ایک اقدام ہے جسے کئی دیگر لوگوں نے سراہا ہے۔
طریقہ کار واضح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جائزے کے 70؍ فیصد نمبر کمیت کی بنیاد پر طے کردہ اہداف پر دیے گئے اور یہ اہداف وزارتوں نے خود طے کیے۔ انہوں نے کہا کہ 30؍ فیصد نمبر کیفیتی بنیاد پر دیے گئے جن میں کیے گئے اقدامات کے معیار، مطلوبہ کوششیں اور کی گئی کوششیں، اہداف کی تکمیل میں وزیر نے وزارت کی کس طرح مدد و رہنمائی کی اور مکمل کیے گئے اہداف وغیرہ شامل ہیں۔
ارباب نے کہا کہ کمیٹی نے شفاف انداز سے جائزہ مکمل کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ کمیٹی نے ہر وزارت کو اپنے نمبر دیے۔ میرٹ اور شفافیت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی اپنی ڈویژن (اسٹیبلشمنٹ ڈویژن) کا جائزہ لے کر اسے 18ویں نمبر پر رکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے 23 وزارتوں اور ڈویژنوں کا جائزہ لے کر انہیں 80؍ فیصد نمبر دیے۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی سب کو 10؍ سرفہرست نمبر نہیں دے سکتی تھی۔
گزشتہ سال جولائی میں، وزیراعظم عمران خان نے تمام وزیروں کے ساتھ کارکردگی کے حوالے سے ایک معاہدہ کیا تھا۔ ان معاہدوں میں وزیروں نے خود اپنے اہداف، منصوبے، پالیسیاں وغیرہ پیش کیے تھے اور ساتھ ہی وقت بھی بتایا تھا کہ وہ یہ اہداف کتنے عرصے میں مکمل کر لیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ جائزہ کمیٹی نے وزیروں سے موصول ہونے والی معلومات کی بنیاد پر ہی کارکردگی کا جائزہ لیا۔
نوٹ: یہ رپورٹ 12 فروری 2022 کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی۔
جیونیوز کے پروگرام میں گفتگو
دوسری جانب جیونیوز کے پروگرام جرگہ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اسٹیبشلمنٹ ارباب شہزاد نے کہا ہےکہ شاہ محمود قریشی اگر ناراض ہیں تو یہ ان کا حق ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈیٹا کی بنیاد پر ایک طریقہ کار کے تحت وزارتوں کی درجہ بندی کی۔
ارباب شہزاد کا تفصیلی انٹرویو دیکھیے جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں آج شب دس بج کر پانچ منٹ پر ۔