پاکستان

اٹارنی جنرل کی وزیراعظم سے ملاقات، پیکا آرڈیننس کے قانونی پہلوؤں سے آگاہ کیا

پیکا ترمیمی آرڈیننس موجودہ شکل میں نافذ نہیں ہوگا، حکومت کا آزادی اظہار پرقد غن کا کوئی ارادہ نہیں، اٹارنی جنرل— فوٹو: فائل
پیکا ترمیمی آرڈیننس موجودہ شکل میں نافذ نہیں ہوگا، حکومت کا آزادی اظہار پرقد غن کا کوئی ارادہ نہیں، اٹارنی جنرل— فوٹو: فائل 

وزیراعظم عمران خان سے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے حوالے سے ملاقات کی۔

ملاقات میں اٹارنی جنرل نے وزیر اعظم کو پیکا ترمیمی آرڈیننس کے حوالے سے قانونی پہلوؤں کے بارے میں آگاہ کیا۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ پیکا ترمیمی آرڈیننس موجودہ شکل میں نافذ نہیں ہوگا، حکومت کا آزادی اظہار پرقد غن کا کوئی ارادہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس موجودہ شکل میں ڈریکونین قانون ہوگا، جمعرات کو پیکا ترمیمی آرڈیننس کے حوالے سے عدالت میں پالیسی بیان دوں گا۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ آرٹیکل 19 کے تحت قانونی تحفظات فراہم ہونے تک پیکا آرڈیننس نافذ نہیں ہوگا۔

پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کیا ہے؟

20 فروری کو حکومت نے پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی صدارتی آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو حاصل استثنیٰ ختم کیا گیا ہے۔

آرڈیننس کے تحت تنقید جرم بن گئی اور جرم ناقابلِ ضمانت ہوگا، پولیس پکڑ کر حوالات میں بند کرے گی اور 6 ماہ میں مقدمے کا فیصلہ ہوگا۔

ٹرائل کورٹ ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائیکورٹ میں جمع کرائے گی اور جان بوجھ کر جعلی خبر پھیلانے، علم ہونے کے باوجود غلط معلومات نشر کرنے، کسی شخص کی ساکھ یا نجی زندگی کو نقصان پہنچانے کا جرم ثابت ہوگیا تو زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک کی سزا ملے گی اور10 لاکھ روپے جرمانہ بھی ہوگا۔

ترمیمی ایکٹ میں تنقید سے مبرا شخص کی تعریف بھی شامل کردی گئی ہے، حکومتی قوانین سے قائم کی گئی کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن، ادارہ، تنظیم، اتھارٹی شامل ہوگی جبکہ متاثرہ شخص کے ساتھ ساتھ اس کا مجاز نمائندہ یا سرپرست بھی شکایت کر سکے گا۔

مزید خبریں :