09 مارچ ، 2022
کیا حکومت بچانے کیلئے وزیراعظم عمران خان کا تُرپ کا پتہ اب بھی باقی ہے؟ پیر کو پنجاب اسمبلی کے اسپیکر اور ق لیگ کے لیڈر پرویز الٰہی نے وزیراعظم کو خبردار کیا ہے کہ اس سے قبل کہ دیر ہوجائے، ’’بڑا فیصلہ‘‘ لے لیں۔
اپنے بیان میں پرویز الٰہی نے واضح نہیں کیا کہ یہ بڑا فیصلہ کیا ہے لیکن ان کے ایک قریبی ذریعے نے بتایا کہ یہ ایک انتظامی نوعیت کا فیصلہ ہے جو پالیسیوں کے تسلسل کیلئے ضروری ہے۔ وزیراعظم عمران خان کیخلاف قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کے بعد لگتا ہے کہ بڑا فیصلہ لینے کا وقت گزر چکا ہے۔
عمران خان کیلئے سیاسی مشکلات بہت سخت ہیں۔ اب عمران خان کا مقابلہ پوری اپوزیشن، ناراض اتحادیوں حتیٰ کہ پی ٹی آئی کے اپنے ہی ترین علیم گروپ کیساتھ ہے۔
اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس پی ٹی آئی کے 20 ارکان قومی اسمبلی کی حمایت موجود ہے جبکہ ترین علیم گروپ نے مذاکرات کیلئے عثمان بزدار کو ہٹانے کی شرط رکھ دی ہے۔ عمران خان اب بھی عثمان بزدار کو ہٹانے کیلئے تیار نہیں اور اپنی پارٹی کے ناراض عناصر کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔
عمران خان نے نہ صرف ناراض ارکان اسمبلی سے خود بات کرنا شروع کر دی ہے بلکہ اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو بھی ذمہ داری دی ہے کہ ترین اور علیم کو قائل کیا جائے تاکہ وہ اپوزیشن کا ساتھ نہ دیں۔
برسوں سے پی ٹی آئی کی بھرپور مالی معاونت کرنے والے جہانگیر ترین اور علیم خان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کے ساتھ غلط کیا گیا اور انہیں پی ٹی آئی کی حکومت میں عمران خان کی وجہ سے جیل میں ڈالا گیا۔ علیم خان نے باضابطہ طور پر پیر کو جہانگیر ترین گروپ میں شمولیت اختیار کی۔
منگل کو گروپ کے ارکان نے لاہور میں ملاقات کی اور صحافیوں کو بتایا کہ وہ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب نہیں دیکھنا چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ جہانگیر ترین فیصلہ کریں گے کہ اپوزیشن کی تحریک میں گروپ کا کردار کیا ہوگا۔ عمران خان کے اتحادی اب بھی مشکوک رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں اور یہ بات عمران خان کیلئے مسئلہ ہے۔
ق لیگ کے لیڈر چوہدری شجاعت بیماری کے باوجود لاہور سے اسلام آباد پہنچے اور مولانا فضل الرحمان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ ذریعے کے مطابق، چوہدری شجاعت آصف زرداری سے بھی ملاقات کریں گے۔ اسمبلی میں تحریک جمع کرائے جانے کے بعد وزیراعظم نے اٹارنی جنرل خالد جاوید سے ملاقات کرکے دستیاب قانونی راستوں پر بات کی۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اٹارنی جنرل نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے آئین کی رو سے حکومت کو اسمبلی کا سیشن بلانا پڑے گا اور عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کرانا ہوگی۔ کسی بھی طرح کی تاخیر یا رکاوٹ ڈالنے کی کوشش معاملے کو سپریم کورٹ تک لیجا سکتی ہے جو حکومت کیلئے باعث ہزیمت ثابت ہوگا۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ فواد چوہدری اور فروغ نسیم نے وزیراعظم کو مشورہ دیا ہے کہ تحریک پر جتنا ممکن ہو سکے اتنی تاخیر سے کام لیا جائے۔ اسی دوران پی ٹی آئی ایک نیا بیانیہ پھیلا رہی ہے کہ مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر عمران خان کو ہٹانے کیلئے حکومت کیخلاف بین الاقوامی سازش کی جا رہی ہے۔
عمران خان کیلئے چیلنج بڑا ہے۔ اگر وہ اپنی سیاسی زندگی کے سب سے بڑے چیلنج سے کامیاب نکل آئے تو وہ واقعی طاقتور وزیراعظم بن کر سامنے آئیں گے۔ اگلے 20؍ دن بتائیں گے کہ کون جیتے گا اور کس کو شکست ملے گی۔
نوٹ: انصار عباسی کی یہ تحریر 9 مارچ 2022 کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی۔