Time 24 مارچ ، 2022
پاکستان

اراکین کو پارٹی لائن پر عمل کرنا ہوتا ہے، فل اسٹاپ: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے دائر صدارتی ریفرنس اور تحریک عدم اعتماد کے دن تصادم روکنے کی سپریم کورٹ بار کونسل کی درخواست پر سماعت آج بھی جاری رہی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی بینچ کا حصہ ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’ووٹ تو ہر صورت ہوگا، ووٹ ڈال کر  شمار نہ کیا جانا توہین آمیز ہے،  ووٹ کی گنتی کے بعد دیکھا جائے گا کہ اس کے ساتھ کیا کرنا ہے، اگرآپ علی الاعلان ووٹ دیں گے تو جماعت تو چھوڑ دی ، پھر معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس اور سپریم کورٹ کے پاس جائے گا، اصل معاملہ تو نا اہلی کی مدت کا ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے بھی عدالت میں تسلیم کیا کہ ووٹ کے بغیر63 اے لگ ہی نہیں سکتا، دیکھنا یہ ہے کہ ووٹ کے بعد رکن کے ساتھ کیا ہوگا۔

چیف جسٹس نے دورانِ سماعت ریمارکس دیے کہ 63 اے میں ایک طریقہ کار موجود ہے، آرٹیکل 63 اے کی روح کو  نظر انداز نہیں کرسکتے، عدالت کا کام خالی جگہ پُرکرنا نہیں، ایسے معاملات ریفرنس کے بجائے پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ’مسٹر اٹارنی جنرل ہم نے سیاسی جماعتوں کو پہلے ہی نوٹس جاری کر دیا تھا، اس پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ تمام سیاسی جماعتیں صوبوں میں پہلے سے ہی نمائندگی رکھتی ہیں۔‘

چیف  جسٹس پاکستان نے کہا کہ تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کیے جا رہے ہیں، معاونت کے لیے چاروں صوبوں کو نوٹس جاری کر رہے ہیں، پہلے صوبوں کو باقاعدہ نوٹس جاری کریں گے، سندھ ہاؤس کی ایف آئی آر  والے معاملے پر بات کریں گے۔

عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں: چیف جسٹس

اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی نے ضلعی انتظامیہ سے ملاقات کی، جے یو آئی نے کشمیر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست کی ہے، کشمیر ہائی وے اہم سڑک ہے جو  راستہ ائیرپورٹ کو جاتا ہے، کشمیر ہائی وے سے گزر کر ہی تمام جماعتوں کے ارکان اسلام آباد آتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ معلوم نہیں عدم اعتماد پر ووٹنگ کب ہوگی لیکن عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ جمہوری عمل کا مقصد روزمرہ امور کو متاثر کرنا نہیں ہوتا۔

وکیل جے یو آئی ف کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ درخواست میں واضح کیا ہے کہ قانون پر عمل کریں گے،  ہمارا جلسہ اور دھرنا پرامن ہوگا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کا جے یو آئی ف کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ سے حکومت والے ڈرتے ہیں، چیف جسٹس کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

جے یو آئی نے نہ صرف احتجاج بلکہ جلسے کی کال دی ہے، عدالت اس طرح کی کارروائیاں روکنے کی ہدایت کرے: اٹارنی جنرل

خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی پر امن رہے تو مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا، سپریم کورٹ نے کہا کہ ضمیر تنگ کر رہا ہے تو مستعفی ہو جائیں، سال 1992 کے بعد سے بہت کچھ ہوا۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد سے بات ہو گئی ہے، پولیس کے اقدامات سے مطمئن ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اچھی بات یہ ہے کہ پولیس قانون کے مطابق کارروائی کر رہی ہے،صوبائی حکومتیں بھی تحریری طور  پر اپنے جوابات جمع کروائیں، تحریری جوابات آنے پرصدارتی ریفرنس پرسماعت میں آسانی ہو گی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے ممبران غلط سرگرمیوں میں ملوث ہوئے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جے یو آئی کی مانگی گئی جگہ سڑک پر ہے؟ 

خالد جاوید خان نے بتایا کہ جے یو آئی کی طرف سے سڑک کے قریب جگہ مانگی گئی ہے، جے یو آئی نے نہ صرف احتجاج بلکہ جلسے کی کال دی ہے، عدالت اس طرح کی کارروائیاں روکنے کی ہدایت کرے، وکلا محاصرہ کیس اور دیگرکیسز میں سپریم کورٹ منحرف اراکین پر آبزرویشن دے چکی ہے۔

 ووٹ رکن پارلیمنٹ کا حق ہے، سیاسی جماعت کا نہیں: جسٹس جمال مندوخیل 

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاداریاں تبدیل کرنے والے اراکین اسمبلی نے  آج تک استعفی نہیں دیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا کام ہے کہ سیاسی جماعتوں کو قائل کریں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 17(2) سے متعلق سپریم کورٹ کہہ چکی ہےکہ انفرادی ووٹ کی کوئی حیثیت نہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کے دلائل کو سمجھ رہے ہیں، یہ سب بہت اہمیت کا حامل ہے، آرٹیکل 63 اے نے انحراف پر ایک طریقہ کار وضع کر دیا ہے، اس کے دو طرح کے نتائج ہو سکتے ہیں، اس معاملے کے ایک آئینی اور دوسرا قانونی نتائج ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ اگر ووٹ جماعت کا نہ ہو تو جہموری عمل تو زمین بوس ہو جائے گا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو شخص کسی جماعت سے جیت کر آئے وہ اپنے حلقے کی آواز ہوتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ووٹ رکن پارلیمنٹ کا حق ہے، سیاسی جماعت کا نہیں جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ممبران پارلیمنٹ پارٹی لائن سے باہر ووٹ کاسٹ کر سکتے ہیں۔

دوسری کشتی میں چھلانگ لگانے والے کو سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے: چیف جسٹس

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتیں ادارے ہیں، ڈسپلن کی خلاف ورزی سے ادارے کمزور ہوتے ہیں، پارٹی لائن کی پابندی نہ ہو تو سیاسی جماعت تباہ ہو جائے گی۔

خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ 1985 میں غیرجماعتی بنیاد پر الیکشن ہوئے تھے، محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بننے کے لیے پارٹی صدر بننا پڑا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے سیاسی اور قانونی محرکات الگ ہیں، سیاسی اثر تو یہ ہے کہ رکن کو دوبارہ ٹکٹ نہیں ملے گا جبکہ آئینی نقطہ یہ ہے کہ نااہل ہو جائے گا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ کیا اراکین پارٹی کے ساتھ اپنے حلقوں کو جوابدہ نہیں؟ پارٹی ڈسپلن کی پابندی کس کس حد تک ہے؟

خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ پارٹی میں بات نہ سنی جا رہی ہو تو مستعفی ہوا جا سکتا ہے، مستعفی ہو کر رکن اسمبلی دوبارہ عوام میں جا سکتا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ٹکٹ لیتے وقت امیدوار کو پتہ ہوتا ہے وہ کب آزادی سے ووٹ نہیں دے سکتے جبکہ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ دوسری کشتی میں چھلانگ لگانے والے کو سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ اگر ایک رکن اپنی جماعت کے غلط اقدام پر جماعت چھوڑے تو؟

63 اے کہتا ہے کہ بیشک آپ اپنی جماعت سے ناخوش ہوں مگر جماعت کیساتھ کھڑے ہوں: جسٹس عمر عطا بندیال

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر چھوڑنا چاہے تو دو لفظ لکھ کر دے دیں کہ میں استعفیٰ دے رہا ہوں، یہ ایک کشتی کو ڈبو کر دوسرے پر بیٹھ رہے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا اس کا مطلب ہے کہ جماعت سے انحراف کے نتائج بھگتنا ہوں گے جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے لیے نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا، موجودہ حکومت کی بہت کم اکثریت ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ  سوال یہ ہے کہ کتنے عرصے کے لیے منحرف رکن کو ڈی سیٹ کیا جائے؟ جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک کشتی سے اتر کے دوسری میں بیٹھ رہے ہیں؟

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ اراکین کو پارٹی مینڈیٹ کے مطابق ووٹ دینا ہوتا ہے، اراکین کو پارٹی لائن پر عمل کرنا ہوتا ہے، فل اسٹاپ، دیٹس اٹ، پارٹی لائن تبدیل کرنے پر گڈ بوائے بیڈ بوائے نہیں کہا جاتا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ 63 اے ابھرتے ہوئے سیاسی سسٹم کا ایک ڈسپلن ہے، 63 اے کہتا ہے کہ بیشک آپ اپنی جماعت سے ناخوش ہوں مگر جماعت کیساتھ کھڑے ہوں۔

63 اے یا آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی تو سارا سیاسی سسٹم ہل جائے گا: اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 63 اے یا آرٹیکل 95 کی بنیاد پر سارا سیاسی سسٹم کھڑا ہے، 63 اے یا آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی تو سارا سیاسی سسٹم ہل جائے گا

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ پارٹی رائے انفرادی رائے پر ووٹ کے وقت حاوی ہوتی ہے، انحراف کا قانون پہلے دن سے موجود ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا کسی رکن کو پارٹی کے خلاف فیصلے کے اظہار کا حق ہے؟ جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا دوسری کشتی میں چھلانگ لگا کر حکومت گرائی جا سکتی ہے؟

جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ زیادہ تر جہموری حکومتیں چند ووٹوں کی برتری سے قائم ہوتی ہیں، کیا دوسری کشتی میں جاتے جاتے پہلا جہاز ڈبویا جا سکتا ہے؟

جسٹس منیب نے ریمارکس دیے کہ چھلانگیں لگتی رہیں تو معمول کی قانون سازی بھی نہیں ہو سکتی جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اب پنڈورا باکس کھل گیا تو میوزیکل چیئر ہی چلتی رہے گی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملہ صرف 63 اے کی تلوار کا نہیں بلکہ پورے سسٹم کے ناکام ہونے کا ہے۔

 پارٹی لیڈر کو بادشاہ نہیں پر لوٹا بھی نہیں بننا چاہیے:  خالد جاوید خان

جسٹس منیب نے کہا کہ سب نے اپنی مرضی کی تو سیاسی جماعت ادارہ نہیں ہجوم بن جائے گی، انفرادی شخصیات کو طاقتور بنانے سے ادارے تباہ ہو جاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فلور کراسنگ کی باقی جمہوری حکومتوں میں اجازت ہے یا نہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ باقی ملکوں میں کرسمس سے پہلے قیمتیں کم ہوتی ہیں، ہمارے ہاں رمضان میں ڈبل ہوجاتی ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آپ پارٹی لیڈر کو بادشاہ بنانا چاہتے ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی لیڈر کو بادشاہ نہیں پر لوٹا بھی نہیں بننا چاہیے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارٹی کے اندر کھلی بحث کروا لیں، جس پر خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ اس سے زیادہ کیا بحث کرائیں کہ سندھ ہاؤس میں یہ بول لیتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 63 اے میں واضح ہے کہ اس کا اطلاق اسپیکر یا چیئرمین پر نہیں ہوتا، جو بندہ ابھی بھی سیٹ پر موجود ہے کیا اس کا ووٹ کاؤنٹ ہو گا؟

سپریم کورٹ نے بار کونسل کو بھی معاونت کے لیے نوٹس جاری کر رکھا ہے، حکومت کی اتحادی جماعتوں کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس کیا گیا ہے۔

سماعت سے قبل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، جے یو آئی اور (ن) لیگ نے صدارتی ریفرنس سے متعلق تحریری جوابات  عدالتِ عظمیٰ میں جمع کرائے۔

کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

مزید خبریں :