دھمکی آمیز خط: لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق خان نے کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرلی

خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق خان نے تحقیقاتی کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرلی ہے اور انہوں نے فیصلے سے حکومت کو آگاہ بھی کردیا ہے— فوٹو: فائل
خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق خان نے تحقیقاتی کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرلی ہے اور انہوں نے فیصلے سے حکومت کو آگاہ بھی کردیا ہے— فوٹو: فائل

وفاقی حکومت نے غیر ملکی سازش کی تحقیقات کیلئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق کی سربراہی میں کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تاہم لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق خان نے کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرلی ہے۔

خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق خان نے تحقیقاتی کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرلی ہے اور انہوں نے فیصلے سے حکومت کو آگاہ بھی کردیا ہے۔

فواد چوہدری نے آج کابینہ کے اجلاس کے بعد کہا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) طارق خان کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن قائم کیا گیا ہے، کمیشن کو تحقیقات کیلئے 90 دن دیے گئے ہیں۔

دھمکی آمیز خط کا معاملہ کیا ہے؟

واضح رہے کہ 27 مارچ کو اسلام آباد میں جلسہ عام سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے ایک خط لہرایا تھا اور کہا تھاکہ ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی، میرے پاس خط ہے جو اس بات کا ثبوت ہے۔

اس کے بعد 31 مارچ کو قوم سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے مراسلے والے ملک کا ذکر کرتے ہوئے ’امریکا‘ کا نام لیا اور پھر غلطی کا احساس ہونے پر رکے اور کہا کہ نہیں باہر سے ملک کا نام مطلب کسی اور ملک سے باہر سے، البتہ بعد میں انہوں نے کھل کر کہا کہ خط امریکا میں تعینات ان کے سفیر نے بھیجا لیکن اس میں امریکا کا پیغام تھا۔

وزیراعظم کا کہنا تھاکہ ’ یہ آفیشل ڈاکومنٹ ہے، جس اجلاس میں یہ بات ہوئی وہاں ہمارے سفیر نوٹس لے رہے تھے، جس میں یہ کہا گیا کہ اگر عمران خان وزیراعظم رہتا ہے تو ہمارے آپ کے ساتھ تعلقات خراب ہوجائیں گے اور آپ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، ہمیں کوئی باہر کا ملک دھمکی دے رہا ہے اور کوئی وجہ بھی نہیں بتا رہا، بس ایک چیز بتا دی کہ عمران خان نے اکیلا روس جانے کا فیصلہ کیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’روس جانے کا فیصلہ دفتر خارجہ اور عسکری قیادت کی مشاورت سے ہوا، ہمارا سفیر ان کو بتا رہا ہے کہ یہ مشاورت سے ہوا ہے انہوں نے کہا نہیں یہ صرف عمران خان کی وجہ سے ہوا، انہوں نے لکھا جب تک وہ ہے ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہوسکتے، اصل میں وہ کہہ رہے ہیں کہ عمران کی جگہ جو آئے گا ان سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

بعد ازاں اسی خط کو جواز بناکر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے 3 اپریل کو وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں کرائی اور عدم اعتماد کی قرارداد کو ملک دشمنوں کی سازش قرار دے کر مسترد کردیا۔

3 اپریل کو ہی عمران خان کے خطاب کے بعد صدر عارف علوی نے قومی اسمبلی تحلیل کردی تاہم اپوزیشن نے اس سارے عمل کو غیر آئینی قرار دیا اور اسمبلی کے اندر ہی دھرنا دے دیا۔

قومی اسمبلی کی کارروائی پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا جس کی پانچ روز تک سماعت جاری رہی جس کے بعد 7 اپریل کو سپریم کورٹ نے 3 اپریل کے ڈپٹی اسپیکر اور صدر اور وزیراعظم کے تمام احکامات کالعدم قرار دے کر اسمبلی بحال کردی اور 9 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے اس اہم ترین کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل تھے۔

مزید خبریں :