11 اپریل ، 2022
لاہور: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس امیر بھٹی کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا معاملہ فریقین افہام و تفہیم سے حل کریں۔
وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن کرانے کے لیے درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس امیر بھٹی کر رہے ہیں۔
دوران سماعت حمزہ شہباز کی درخواست میں فریق بننے کے لیے ق لیگ کے وکیل عامر سعید راں نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ہمارے اراکین کو محبوس رکھا ہوا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی فریق ہیں، اجلاس کریں اور وہاں یہ معاملہ دیکھیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے کیا اجلاس اس طرح ملتوی ہو سکتا ہے یا نہیں؟
حمزہ شہباز کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ اجلاس بلائیں، جس پر جسٹس امیر بھٹی نے کہا کہ ہمیں متعلقہ اتھارٹی سے پوچھنا ہے کہ الیکشن کیسے کرانا ہے، سب جواب دیں الیکشن کیسے ہو گا اور اس کا طریقہ کار کیا ہے۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ حمزہ شہباز کی درخواست میں کئی حقائق چھپائے گئے ہیں جبکہ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے استعفے کے بعد اب یہ عہدہ خالی ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے سیکرٹری پنجاب اسمبلی سے پوچھا کہ آپ کے پاس ریکارڈ ہے؟ جس پر انہوں نے بتایا کہ یکم اپریل کو استعفیٰ منظور اور 2 اپریل کو الیکشن شیڈول کا اعلان ہوا، ہمیں کاغذات نامزدگی موصول ہوئے جن کی جانچ پڑتال بھی ہو گئی، کاغذات نامزدگی منظور ہوئے، ووٹنگ کے لیے اجلاس 3 اپریل کو طلب کر لیا گیا۔
سیکرٹری اسمبلی نے کہا کہ اجلاس کے پریزائڈنگ افسر ڈپٹی اسپیکر تھے، ہنگامہ آرائی ہونے پر اجلاس ڈپٹی اسپیکر نے ملتوی کر دیا، اپوزیشن نے ہاؤس میں توڑ پھوڑ کی، یہ رات 8 بجے تک لابی میں رہے، ہمارے پاس ساری ویڈیوز موجود ہیں، میں نے رپورٹ کیا کہ کیا کیا نقصان ہوا۔
سیکرٹری اسمبلی نے مزید بتایا کہ سوشل میڈیا سے پتہ چلا کہ 6 اپریل کو ایک کاغذ پر لکھا تھا کہ اجلاس کرائیں، یہ کاغذ کسی کو مارک نہیں ہوا، ہم نے انٹرنیٹ سے نکالا، ہم نے اس کا 6 اپریل کو معائنہ کیا، اس کاغذ پر 5 تاریخ لکھی ہے، ہم نے ڈپٹی اسپیکر کو کئی فون کیے لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا، ہم نے چیک کیا کہ یہ لیٹر کہیں اسمبلی میں جمع نہ ہوا، ہم نے یہ سب اسپیکر کو بتایا، اسپیکر نے ڈپٹی اسپیکر سے اسپیکر کے اختیارات واپس لے لیے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ اختیارات واپس لینے کی وجہ کیا بنی؟ جب آپ کو یہ لیٹر ملا ہی نہیں تو آپ نے عمل کہاں کرانا تھا۔
سیکرٹری اسمبلی نے بتایا بعد میں تحریک عدم اعتماد آگئی اس کے بعد ڈپٹی اسپیکر اجلاس نہیں بلا سکتا تھا، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا یہ کہاں لکھا ہے، میں ڈپٹی اسپیکر سے اسپیکر کے اختیارات واپس لینےکا پوچھ رہا ہوں کہ یہ کیوں کیا، عدالت کے پاس صرف سوال یہ ہے کہ الیکشن ملتوی کس قانون کے تحت کیا۔
جسٹس امیر بھٹی کا کہنا تھا بظاہر اجلاس ملتوی نہیں ہو سکتا تھا، مجھے یہ لگتا ہے الیکشن کا وقت بدل سکتا ہے لیکن دن نہیں بدل سکتا، یہ پارلیمنٹ کے کام میں مداخلت نہیں ہے، اسپیکر تو خود امیدوار ہیں انہوں نے ڈپٹی اسپیکر کے اختیارات واپس لے لیے۔
وکیل چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ اسمبلی رول 25 کی حد تک اختیارات واپس لیے گئے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ جس نے بھی الیکشن کی تاریخ بدلی وہ کس قانون کے تحت کیا، کوئی بھی الیکشن شیڈول سے ہٹ کر کیسے تاریخ بدل سکتا ہے
وکیل اسپیکر پنجاب اسمبلی علی ظفر نے کہا کہ پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کے کام میں عدالت مداخلت نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ میں یہ معاملہ آیا تھا لیکن اس پر کوئی حکم نہیں آیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ میں نے سنا تھا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے اس پر سپریم کورٹ میں کوئی بیان دیا تھا۔
عدالت میں اسپیکر اسمبلی کے وکیل علی ظفر اور حمزہ شہباز کے وکیل اعظم نذیر تارڑ کے مابین سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ آپس میں جھگڑا نہ کریں۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی ہدایت پر وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے ایڈووکیٹ جنرل آفس میں اجلاس ہو رہا ہے جس میں اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور وزیر اعلیٰ کے امیدواروں کے وکلا بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اجلاس میں سیکرٹری پنجاب اسمبلی، مسلم لیگ ق اور ن لیگ کے وکلا بھی موجود ہیں۔
چیف جسٹس امیر حسین بھٹی نے فریقین کو معاملےکو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔