خفیہ اداروں نے غیر ملکی مراسلے کی تحقیق کی، سازش کے ثبوت نہیں ملے، قومی سلامتی کمیٹی

وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں امریکا میں تعینات سابق سفیر پاکستانی سفیر اسد مجید نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے پر بریفنگ دی— فوٹو: اسکرین گریب
وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں امریکا میں تعینات سابق سفیر پاکستانی سفیر اسد مجید نے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے پر بریفنگ دی— فوٹو: اسکرین گریب

وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس  ہوا جس میں امریکا میں تعینات سابق سفیر  پاکستانی سفیر اسد مجید نے مبینہ دھمکی آمیز  مراسلے پر بریفنگ دی۔

اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی کے گذشتہ اجلاس کے مِنٹس بھی پیش کیے گئے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، فضائیہ اور بحریہ کےسربراہان بھی شریک ہوئے۔

اجلاس میں امریکا میں تعینات رہنے والے سابق پاکستانی سفیر اسد مجید اور  اعلٰی سول و ملٹری حکام شریک ہوئے جن میں وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، وزیر اطلاعات  مریم اورنگزیب، وفاقی وزیر احسن اقبال، وزیرمملکت برائے امورخارجہ حنا ربانی کھر شامل ہیں۔

اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ خفیہ اداروں نے مراسلے کی تحقیقات کیں، دوران تحقیقات غیرملکی سازش کے ثبوت نہیں ملے۔ سکیورٹی اداروں کی تحقیقات کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی، اجلاس میں قومی سلامتی کمیٹی کے گزشتہ اجلاس کے فیصلوں کی توثیق بھی کی گئی۔

فوٹو: ن لیگ
فوٹو: ن لیگ

امریکا میں پاکستان کےسابق سفیر اسد مجید نے قومی سلامتی کمیٹی کو بریفنگ دی۔

کمیٹی نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے سے  موصول ہونے والے ٹیلی گرام پر تبادلہ خیال کیا۔ اسد مجید نے اپنے بھیجے گئے ٹیلی گرام کے سیاق و سباق اور مواد کے حوالے سے بریفنگ دی۔

اعلامیے کے مطابق سکیورٹی ایجنسیز نےقومی سلامتی کمیٹی کو سازش کے ثبوت نہ ملنے سے آگاہ کردیا ہے۔

غیر ملکی خط کا معاملہ کیا ہے؟

یاد رہے کہ 27 مارچ 2022 کو تحریک انصاف کے چیئرمین اور اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں جلسے کے دوران ایک خط لہرا کر دکھاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت کو گرانے کی سازش ایک بہت ہی طاقتور ملک کی جانب سے کی گئی۔

بعد ازاں اس معاملے پر دفتر خارجہ نے اسلام آباد میں تعینات امریکی ناظم الامور سے احتجاج کرتے ہوئے ڈی مارش بھی جاری کیا تھا۔

اسی معاملے پر 31 مارچ کو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا۔

31 مارچ 2022 کے قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کا اعلامیہ

قومی سلامتی کمیٹی نے غیر ملکی سفارتکار کی استعمال کی گئی زبان پر تشویش کا اظہار کیا اور مؤقف اپنایا کہ غیرملکی مراسلہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کے مترادف ہے، پاکستان کے اندرونی معاملات میں کسی بھی طرح کی مداخلت ناقابل برداشت ہے اور اندورنی معاملات میں مداخلت کسی بھی صورت قابل قبول نہیں۔

اعلامیے کے مطابق غیر ملکی آفیشل کی استعمال کی گئی زبان غیر سفارتی ہے، سفارتی آداب مدنظر رکھتے ہوئے متعلقہ ملک سے سخت احتجاج کیا جائے گا اور غیرملکی مراسلے کا جواب سفارتی آداب کومدنظر رکھ کردیا جائے گا۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ متعلقہ ملک کو اسلام آباد اور اس کے دارالحکومت میں سخت احتجاجی مراسلہ دیا جائے گا جبکہ سخت مراسلہ باضابطہ چینل کے ذریعے جاری کیا جائے گا۔

بعد ازاں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہونے کے بعد منتخب ہونے والے وزیراعظم شہباز شریف نے پہلی ہی تقریر میں مبینہ دھمکی آمیز خط کے معاملے پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کا اعلان کیا تھا۔ 

مزید خبریں :