بلاگ

آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کیلئے سخت شرائط

پاکستان کے نئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ پاکستان کا آئی ایم ایف پروگرام میں جانا ناگزیر ہے جس کے لیے حکومت کو آئی ایم ایف کی پانچ نئی شرائط پوری کرنا ہوں گی جن میں سابق وزیراعظم عمران خان کی دی گئی پیٹرول سبسڈی، بجلی کی قیمتوں میں کمی اور صنعتی ایمنسٹی اسکیم کا خاتمہ شامل ہے۔ 

اسکے علاوہ پرسنل انکم ٹیکس کی شرح میں اضافہ، گردشی قرضوں میں کمی، نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں کی نجکاری، پیٹرول اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ، ٹیکس سبسڈی کا خاتمہ اور حکومت کے ترقیاتی منصوبوں میں 100ارب روپے کی کٹوتی کرکے 600 ارب روپے تک لانا ہے۔سابق وزیراعظم عمران خان نے ملک میں مہنگائی، پیٹرول اور بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ کرنے کے بعد پیٹرول کی قیمت میں 10روپے فی لیٹر اور بجلی کے ٹیرف میں 5 روپے فی یونٹ کمی کی تھی اور جون 2022ء تک قیمتیں نہ بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔ 

اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ پر پیٹرولیم لیوی کا خاتمہ اور سیلز ٹیکس میں بھی کمی کی گئی تھی جس سے حکومت کو مارچ سے جون 2022ء تک 4مہینوں میں 250 سے 300 ارب روپے کا اضافی بوجھ برداشت کرنا پڑا جو تقریباً ہمارے سالانہ دفاعی بجٹ کے برابر ہے۔ اسی دوران عمران خان نے ملک میں صنعتکاری اور نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کیلئے صنعتی ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا تھا جس میں صنعتیں لگانے کیلئے فنڈز کے ذرائع پوچھے نہیں جائیں گے لیکن FATF کے تحت کالے دھن کو سفید کرنا منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتا ہے لہٰذا آئی ایم ایف کو FATF کے بین الاقوامی قوانین کے تحت ایمنسٹی اسکیم قبول نہیں۔

 میں نے اپنے کالم میں حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ ان مراعات کا اعلان کرنے سے پہلے آئی ایم ایف کی رضامندی لینی چاہئے تھی جیسا کہ آئی ایم ایف نے ان مراعات کو واپس لینے کا کہہ دیا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ان مراعات کے اضافی مالی بوجھ کے لیے حکومت ٹیکس وصولی کے ہدف کو بڑھائے یا حکومتی اخراجات میں کمی کرے نہیں تو ترقیاتی منصوبوں میں کٹوتی کی جائے۔ پی ٹی آئی حکومت نے اپنے آخری دنوں میں مقبولیت کے لیے ریلیف پیکیج دے کر ملکی معیشت کو خطرے میں ڈال دیا۔ دنیا میں جب تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، ہم اپنے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرنے کے بعد انہیں منجمد کرکے قومی خزانے پر اضافی بوجھ ڈال کر ملکی معیشت کو سنگین خطرات سے دوچار کررہے تھے اور بالآخر ان غلط فیصلوں کو اب آئی ایم ایف کے کہنے پر واپس لینا پڑے گا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس اس وقت زرِمبادلہ کے ذخائر 16.2 ارب ڈالر سے گرکر 11.3ارب ڈالر تک آگئے ہیں جب کہ کمرشل بینکوں کے ڈپازٹ 6.18 ارب ڈالر ہیں۔ اس طرح پاکستان کے مجموعی زرِمبادلہ کے ذخائر 17 ارب ڈالر بنتے ہیں جو صرف 40 سے 50 دنوں کی امپورٹ کے لیے کافی ہیں۔

 اس کے علاوہ ہمیں جون 2022ء تک 4 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنا ہیں لہٰذا ہمیں اپنے دوست ممالک سے ہنگامی طور پر سافٹ قرضے اور ڈپازٹس حاصل کرنے ہوں گے۔ اس وقت پاکستان نے دوست ممالک سے 9 ارب ڈالر کے سافٹ قرضے اور ڈپازٹ لئے ہوئے ہیں جن میں چین سے 4 ارب ڈالر، سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات سے 2 ارب ڈالر کے سافٹ ڈپازٹس شامل ہیں۔ حکومت نے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کی وجہ سے 2.4 ارب ڈالر کے چین کے قرضوں کی واپسی میں توسیع کی درخواست کی ہے۔ 

اس سلسلے میں کراچی میں چین کے قونصل جنرل اور میرے دوست بائی جیانگ سے ملاقات میں، میں نے ان سے چینی قرضوں کے رول اوور کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس قرضے میں چینی بینکوں کا کنسوریشم شامل ہے لہٰذا رسمی کارروائی کے بعد یہ قرضہ رول اوور ہوجائے گا۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق پاکستان کو آئندہ 3 ماہ میں ادائیگی میں توازن کے بحران سے بچنے کیلئے 12 ارب ڈالر حاصل کرنا ہیں اور آئندہ 7 برسوں میں 10سے 11 ارب ڈالر سالانہ کے حساب سے مجموعی طور پر 30 ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگیاں کرنی ہیں جس کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف کے علاوہ ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے بھی قرضہ لینا ہوگا لہٰذاآئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام بحال ہونا ضروری ہے۔ پاکستان کے موجودہ بیرونی قرضے 102 ارب ڈالر ہیں جن میں 50ارب ڈالر صرف پی ٹی آئی حکومت نے لئے۔

 اس وقت ملکی کرنٹ اکائونٹ خسارہ 43 ارب ڈالر، 75 ارب ڈالر کی ریکارڈ امپورٹ جبکہ ایکسپورٹ صرف 30 ارب ڈالر کی وجہ سے رواں مالی سال 45ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ متوقع ہے۔ روپے کی قدر میں مسلسل کمی ڈالر کے مقابلے میں 187روپے کی نچلی سطح تک آگئی ہے جس کے پیش نظر آئی ایم ایف نے رواں مالی سال افراط زر 11.2 فیصد اور جی ڈی پی گروتھ میں کمی کرکے 4فیصد ہدف رکھا ہے۔ جی ڈی پی گروتھ میں کمی کے مدنظر اضافی ریونیو حاصل کرنا حکومت کیلئے ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔ ان معاشی اعداد و شمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری معیشت بے پناہ دبائو کا شکار ہے جس کیلئے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر ایسے فیصلوں پر نظرثانی کرنا ہوگی جو ہماری معیشت برداشت نہیں کرسکتی، ورنہ ہم سخت معاشی بحران کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اس مشکل معاشی صورتحال سے نکالے۔ (آمین)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔