11 مئی ، 2022
وزیر دفاع خواجہ آصف نے نومبر میں عام انتخابات کے اپنے بیان کی وضاحت کردی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ان کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا، ان کی اور آصف زرداری کی رائے میں کوئی فرق نہیں کہ نیب اور انتخابی اصلاحات سے پہلے انتخابات نہیں ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ اتحادی جماعتوں میں اصلاحات کو لے کر کوئی اختلاف نہیں۔ جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں خواجہ آصف نے کہا کہ انٹرویو میں ان سے نومبر میں آرمی چیف کی تعیناتی کا سوال پوچھا گیا تھا جس کا جواب انہوں نے دیا کہ اُس وقت جو حکومت ہوگی وہ یہ تعیناتی کرے گی۔
بعد ازاں جیو ہی کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ معاشی صورتحال پر اگلے 24 گھنٹوں میں اہم فیصلے لیں گے، ن لیگ میں بحث جاری ہے کہ الیکشن کب ہونے ہیں، الیکشن کے بارے میں اتحادیوں سے مشورہ کرکے فیصلہ کریں گے۔
عمران حکومت نے جو تباہی مچائی اس کا ملبہ ہمارے اوپر کیوں آئے؟
خواجہ آصف نے کہا کہ عمران حکومت نے جو تباہی مچائی اس کا ملبہ ہمارے اوپر کیوں آئے؟ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن میں قانون سازی کے بعد جائیں، آصف زرداری کی آج کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں، سیاسی فیصلوں کے لیے وقت ہے، معاشی فیصلوں کے لیے بالکل وقت نہیں،معاشی محاذ پر اس وقت ہنگامی صورتحال ہے، لندن میں فیصلے نہیں ہورہے، مفتاح اسماعیل ہی ہمارا وزیر خزانہ ہے، میں اتفاق کرتا ہوں کہ تاخیر ہمیں نقصان پہنچارہی ہے،حکومت مشکل فیصلے کرنے کیلئے تیارہے۔
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ عوام کو بتائیں گے کہ ان مشکل فیصلوں کی ذمہ دار پی ٹی آئی ہے، الیکشن کا فیصلہ معیشت سے متعلق ہمارےفیصلے پرمبنی ہوگا۔
خیال رہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں خواجہ آصف سے منسوب بیان سامنے آیا تھا کہ آرمی چیف کی تبدیلی سے پہلے نومبر میں عام انتخابات کا امکان ہے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے خواجہ آصف نے آرمی چیف کیلئے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے نام پر غور سے انکار نہیں کیا اور کہا کہ وہ نام سینیارٹی لسٹ میں ہوا تو بالکل غور ہوگا، فوج اگر فیض حمید کا نام بھیجے تو وزیر اعظم کے پاس یہ کہنے کی گنجائش نہیں کہ 5 کے بجائے 3 یا 8 نام بھیجیں، وزیراعظم کی یہ صوابدید ہے کہ فوج کے بھیجے ناموں میں سے ہی کس کو منتخب کرے۔
خواجہ آصف کا مکمل انٹرویو یہاں پڑھیں
خواجہ آصف نے انٹرویو میں مزید کہا تھا کہ عمران خان اگلے آرمی چیف کے معاملے پر ذاتی مرضی چاہتے تھے تاکہ ان کے سیاسی مفادات اور حکمرانی کے تسلسل کا تحفظ یقینی ہوسکے۔