اسپین: ایام حیض میں شدید تکلیف کا سامنا کرنے والی خواتین کو بامعاوضہ چھٹیاں دینے پر غور

اسپین کی وزیر مساوات آئیرین مونٹیرو نے گزشتہ روز اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’ ہم جلد ایسا قانون منظور کریں گے جس کے تحت ماہواری کے دوران شدید تکلیف کا سامنا کرنے والی خواتین کو بامعاوضہ چھٹیاں لینے کا حق دیا جائے گا— فوٹو: فائل
اسپین کی وزیر مساوات آئیرین مونٹیرو نے گزشتہ روز اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’ ہم جلد ایسا قانون منظور کریں گے جس کے تحت ماہواری کے دوران شدید تکلیف کا سامنا کرنے والی خواتین کو بامعاوضہ چھٹیاں لینے کا حق دیا جائے گا— فوٹو: فائل

اسپین میں ان ملازمت پیشہ خواتین کو بامعاوضہ چھٹیاں دینے کے قانون کی منظوری جلد متوقع ہے جنہیں ایام حیض کے دوران شدید تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔

تاہم اس مجوزہ قانون پر اسپین کی مخلوط حکومت اور ٹریڈ یونینز کے درمیان اختلاف رائے سامنے آیا ہے۔

اگر اسپین میں یہ قانون منظور ہوگیا تو وہ ملازمت پیشہ خواتین کو ماہواری کے دوران با معاوضہ چھٹیاں دینے والا پہلا یورپی ملک بن جائے گا۔

اسپین کے موجودہ وزیراعظم پیدرو سانچز اشتراکی نظریات کے حامل ہیں اور وہ اس قانون کے بھی حامی ہیں۔

ان کی حکومت کی جانب سے ماہواری کی چھٹیوں سے متعلق شق تولیدی صحت کے حوالے سے مجوزہ بل میں شامل کرکے منگل کو کابینہ کے اجلاس میں اس کی منظوری لیے جانے کا امکان ہے۔

 اسپین کی وزیر مساوات  آئیرین مونٹیرو نے گزشتہ روز اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’ ہم جلد ایسا قانون منظور کریں گے جس کے تحت ماہواری کے دوران شدید تکلیف کا سامنا کرنے والی خواتین کو  بامعاوضہ چھٹیاں لینے کا حق دیا جائے گا اور اس کے اخراجات ریاست برداشت کرے گی۔‘

مقامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق مجوزہ بل میں ایام حیض میں شدید تکلیف کا سامنا کرنے والی خواتین کو ماہانہ کم سے کم تین  چھٹیاں دینے کی تجویز ہے جبکہ وہ خواتین جن کا اس دوران چلنا پھرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ 5 دن کی چھٹیاں لے سکیں گی البتہ اس کے لیے انہیں میڈیکل سرٹیفکیٹ جمع کرانا ہوگا۔

وزیر مساوات کا کہنا ہے کہ ’ہمارے ارد گرد ایسی خواتین بھی ہیں جو ایام حیض میں کام اور روزمرہ کے دیگر امور معمول کے مطابق انجام دینے سے قاصر ہوتی ہیں کیوں کہ انہیں انتہائی تکلیف دہ حیض آتا ہے۔‘

اس مجوزہ قانون کی بعض سیاستدانوں اور ٹریڈ یونینز نے مخالفت بھی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے کام کی جگہوں پر خواتین کو نقصان ہوگا اور ادارے خواتین کی بجائے مردوں کو ملازمت دینے کو ترجیح دے سکتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے فیصلوں میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے، یہ قانون بالواسطہ طور پر لیبر مارکیٹ میں خواتین کی رسائی کو محدود کرسکتا ہے۔

دوسری جانب ایک اور ٹریڈ یونین نے اس قانون کو اچھی پیش رفت قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ اس قانون سے صحت کے ایک اہم مسئلے کو قانونی تحفظ حاصل ہوسکے گا جسے اب تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ 

خیال رہے کہ ماہواری کے ایام میں چھٹیاں دنیا کے چند ممالک ہی میں دی جاتی ہیں جن میں جنوبی کوریا اور انڈونیشیا بھی شامل ہیں تاہم اس میں کوئی یورپی ملک شامل نہیں۔

مزید خبریں :