Time 15 مئی ، 2022
پاکستان

اگلے ہفتے تیل کی قیمت میں اضافہ یا قومی اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ متوقع

معیشت اور نئے انتخابات کے بارے میں متفقہ فیصلے کے لیے ممکنہ طور پر قومی سلامتی کمیٹی کے خصوصی اجلاس میں مختلف اسٹیک ہولڈرز کو مدعو کرنے پر غور کے درمیان دونوں آپشنز اب بھی کھلے ہیں— فوٹو: فائل
معیشت اور نئے انتخابات کے بارے میں متفقہ فیصلے کے لیے ممکنہ طور پر قومی سلامتی کمیٹی کے خصوصی اجلاس میں مختلف اسٹیک ہولڈرز کو مدعو کرنے پر غور کے درمیان دونوں آپشنز اب بھی کھلے ہیں— فوٹو: فائل

اگلے ہفتے تیل کی قیمت میں اضافہ یا قومی اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ متوقع ہے اور مسلم لیگ (ن) کے آپشنز میں معیشت، انتخابات پر فیصلہ کرنے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مدعو کرنا شامل ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق اگلا ہفتہ انتہائی اہم ہے جیسا کہ وزیر اعظم شہباز شریف یا تو ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کا سخت فیصلہ لیں گے یا ایک ہفتے کے اندر قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیں گے۔ 

ن لیگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ معیشت اور نئے انتخابات کے بارے میں متفقہ فیصلے کے لیے ممکنہ طور پر قومی سلامتی کمیٹی کے خصوصی اجلاس میں مختلف اسٹیک ہولڈرز کو مدعو کرنے پر غور کے درمیان دونوں آپشنز اب بھی کھلے ہیں۔

ن لیگ نے لندن میں پارٹی قائد نواز شریف سے تین روزہ تفصیلی مشاورت کے بعد ابھی تک اپنے فیصلے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ ملک کی معاشی حالت تشویشناک ہے اور ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے بڑے سخت فیصلوں کی ضرورت ہے۔ 

ان ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو بتایا گیا ہے کہ اس طرح کے فیصلوں کی ن لیگ کی قیادت والی مخلوط حکومت کے لیے بہت زیادہ سیاسی قیمت ہوگی جس کے اگست 2023 تک جاری رہنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے جیسا کہ جن آپشنز پر بہت زیادہ بحث کی جارہی ہے وہ اس سال اکتوبر میں انتخابات ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ 

تین سے چھ ماہ حکومت میں رہنا بالخصوص ن لیگ کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا جیسا کہ تیل کی سبسڈی واپس لینے سمیت سخت اور غیر مقبول فیصلے لینے سے کوئی بچ نہیں سکتا جس سے قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہو گا۔

لندن مذاکرات میں بحث کی گئی کہ یا تو ن لیگ کو اب حکومت چھوڑنی ہوگی یا پوری مدت (اگست 2023 تک) مکمل کرنا ہوگی جو صرف اسی صورت ممکن ہے جب حکومت مشکل فیصلے کرے۔ یہ بھی تجویز دی گئی کہ پاکستان کے معاشی بحران کا شکار ہو نے سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف فوری فیصلوں کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول سیاسی جماعتوں، اسٹیبلشمنٹ، میڈیا، عدلیہ وغیرہ کو معیشت کی سنگین صورتحال سے آگاہ کرنے کے لیے قومی مکالمہ شروع کریں۔ 

اس طرح کے اقدام سے تمام اسٹیک ہولڈرز پر فیصلے کی ذمہ داری منتقل کرنے میں مدد ملے گی۔ 

یہ بھی زیر بحث آیا کہ بغیر کسی تاخیر کے وزیراعظم قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بھی بلا سکتے ہیں جہاں صدر، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، صوبائی وزرائے اعلیٰ، چیف جسٹس پاکستان، ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز اور دیگر کو خصوصی طور پر مدعو کیا جائے تاکہ معاشی مسائل پر بات چیت کی جاسکے۔ کہا جاتا ہے کہ یہی فورم قومی اسمبلی کی تحلیل اور اگلے انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ بھی کر سکتا ہے۔ 

اگرچہ نواز شریف ایندھن کی قیمت کا بوجھ عوام پر ڈالنے کے خواہاں نہیں، یہ بحث کی گئی کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ پاکستان کے علاوہ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جو ایندھن پر سبسڈی دیتا ہو۔ کہا گیا کہ حکومت نے ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیا تو پاکستان تین ماہ میں ڈیفالٹ ہو جائے گا اور روپیہ گرجائے گا جس کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ ایسی صورتحال میں اجلاس میں خبردار کیا گیا کہ سری لنکا میں جو کچھ ہو رہا ہے پاکستان کو اس سے کہیں زیادہ خراب صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر پاکستان کی معیشت ڈیفالٹ سے نہیں بچ سکتی جیسا کہ تمام دوست ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا قرض اور مالی امداد آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے سے منسلک ہے جس میں تیل کی سبسڈی کی واپسی بھی شامل ہے۔

یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ اگر شہباز شریف حکومت پیٹرول کی قیمت پر دی جانے والی سبسڈی واپس لے بھی لیتی ہے اور آئی ایم ایف کی دیگر شرائط بھی پوری کرتی ہے تب بھی حکومت کو رواں سال اگست میں آئی ایم ایف کی شرائط پر دوبارہ مذاکرات کرنا ہوں گے۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ حکومت اگست تک رہ پائے گی یا نہیں اس کی کوئی یقین دہانی نہیں ہے جیسا کہ جن آپشنز پر بات ہو رہی ہے وہ ستمبر یا اکتوبر میں ہونے والے انتخابات ہیں۔ 

نواز شریف کو بتایا گیا کہ اگر ن لیگ حکومت عوام پر بوجھ ڈالنے سے بچنے کے لیے ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کرنا چاہتی اور قیمتوں میں مزید اضافہ روکتی ہے تو بہتر ہے کہ حکومت چھوڑ دیں اور نئے انتخابات میں حصہ لیں۔ 

نواز شریف کو تجویز دی گئی کہ اگر حکومت ایندھن کی قیمتوں میں اضافے اور سیاسی قیمت ادا کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو حکومت کو اگلے 15 مہینوں میں کل وقتی کام کرنے اور انتخابات جیتنے کے لیے معاشی تبدیلی اور گورننس کی سطح فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

نوٹ: یہ خبر 15 مئی کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوچکی ہے

مزید خبریں :