20 مئی ، 2022
ماحول میں موجود کیمیائی آلودگی سے دنیا بھر میں موٹاپے کی وبا کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے۔
یہ بات بڑے پیمانے پر ہونے والی سائنسی تجزیے میں سامنے آئی۔
اس تجزیے میں بتایا گیا کہ پہلی بار ایسے ٹھوس شواہد ملے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کیمیائی آلودگی جسمانی وزن پر اثرانداز ہوتی ہے۔
تجزیے میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ جسمانی وزن بڑھانے والے کچھ کیمیائی اثرات آنے والی نسلوں میں بھی منتقل ہوتے ہیں ۔
انہوں نے بتایا کہ پلاسٹک میں عام استعمال ہونے والے کیمیکل بائیفینول اے (بی پی اے)، کچھ کیڑے مارادویات اور دیگر کیمیکل موٹاپے میں اضافے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
ایک تخمینے کے مطابق 1975 سے اب تک عالمی سطح پر موٹاپے کی شرح میں 3 گنا اضافہ ہوا ہے اور اس وقت کم وزن افراد کے مقابلے میں زیادہ جسمانی وزن والے افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
تحقیقی ٹیم میں شامل ڈاکٹر جیرالڈ ہینڈیل نے کہا کہ اس وقت طبی ماہرین کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ اگر لوگ زیادہ کھانا کھائیں گے تو جسمانی وزن میں اضافہ ہوگا اور موٹاپے کا شکار ہونے پر کسی فرد کو مخصوص غذائیں، ادویات یا سرجری جیسے آپشن تجویز کیے جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مگر ایسا ہوتا نہیں اور دنیا بھر میں موٹاپے کے شکار افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے بالخصوص بچوں میں، حقیقی سوال یہ ہے کہ کیا لوگ زیادہ کھانا کھا رہے ہیں؟ ہمارے ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کیمیائی اثرات اس حوالے سے کردار ادا کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آلودگی سے بچنے سے موٹاپے کی روک تھام میں بھی مدد مل سکتی ہے بالخصوص حاملہ خواتین اور بچوں کے لیے تو یہ بہت ضروری ہے۔
40 سے زیادہ سائنسدانوں کی ٹیم نے اس تجزیے پر کام کیا تھا جس کے لیے 14 سو تحقیقی رپورٹس کی جانچ پڑتال کی گئی اور دریافت ہوا کہ یہ کیمکل ہر جگہ موجود ہیں یعنی پانی، مٹی، فوڈ پیکجنگ، عام مصنوعات، فرنیچر اور برقی مصنوعات سب میں۔
تجزیے میں 50 کیمیکلز کو شناخت کیا گیا جو جسمانی وزن میں اضافے میں کردار ادا کررہے ہیں ۔
محققین نے کہا کہ یہ تو ابھی معلوم نہیں ہوسکا کہ موٹاپے کی وبا کی شرح میں ان کیمیکلز کا کتنا ہاتھ ہے مگر یہ ضرور واضح ہوتا ہے کہ ان کا کردار اہم ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا اندازہ ہے کہ 15 سے 20 فیصد موٹاپے کے کیسز کے پیچھے یہی کیمیکل ہیں ، مگر یہ شرح زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ پراسیس غذاؤں میں بھی ایسے کچھ کیمیکلز ہوتے ہیں۔
اس تجزیے کے نتائج جریدے جرنل بائیو کیمیکل فارماکولوجی میں شائع ہوئے۔