نیند اور دماغ کا ایک معمہ سائنسدانوں نے جان لیا

یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی / رائٹرز فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی / رائٹرز فوٹو

طبی ماہرین نے انسانی شعور سے جڑا ایک سائنسی معمہ حل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

اور وہ معمہ ہے کہ ایک جاگتا ہوا دماغ کس طرح کسی تفصیل کو ایک شعوری تجربے میں تبدیل کرتا ہے  مگر نیند کے دوران ایسا کیوں نہیں ہوتا، تو اس کا جواب ہماری نیند میں چھپا ہوا ہے۔

ایک نئی طبی تحقیق کے دوران رضاکاروں کے سروں میں الیکٹروڈز نصب کیے گئے تھے تاکہ یہ جاننے میں مدد مل سکے کہ نیند یا بیداری کے دوران آوازوں پر دماغ کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔

محققین یہ دریافت کرکے حیران رہ گئے کہ ہمارا دماغ گہری نیند کے دوران بھی آوازوں پر ایک کو چھوڑ کر تمام پیمانوں پر طاقتور ردعمل ظاہر کرتا ہے۔

نیند کے دوران دماغ توجہ مرکوز کرنے والی لہروں کی سطح کم رکھتا ہے تاکہ نیند متاثر نہ ہو۔

یعنی دماغ نیند کے دوران آواز کا تجزیہ تو کرتا ہے مگر اس پر توجہ مرکوز نہیں کرپاتا یا اسے شناخت نہیں کرسکتا، تو شعور کو کسی قسم کا احساس نہیں ہوتا۔

جریدے نیچر نیورو سائنسز میں شائع تحقیق کا حصہ بننے والے ماہرین نے بتایا کہ اس کا ڈیٹا انسانی دماغ کی گہرائی میں نصب الیکٹروڈز سے حاصل کیا گیا تھا جس سے معیاری مانیٹرنگ ممکن ہوگئی۔

انہوں نے کہا کہ یہ الیکٹروڈز اس تحقیق کے لیے نصب نہیں کیے گئے تھے بلکہ علاج کی غرض سے لگائے گئے تھے، مگر ان کے باعث ہم دماغی تجزیہ کرنے کے قابل ہوگئے۔

اس تحقیق کے دوران ان افراد کے قریب اسپیکرز کے ذریعے متعدد اقسام کی آوازیں خارج کی گئی اور پھر بیداری اور نیند کے دوران دماغی ردعمل کا موازنہ کیا گیا۔

محققین نے بتایا کہ جب کان تک آوازیں پہنچتی ہیں تو سگنل دماغ کی جانب سفر کرتے ہیں، پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ نیند کے دوران دماغ تک آوازیں پہنچ نہیں پاتیں، مگر ہم یہ دریافت کرکے حیران رہ گئے کہ نیند کے دوران بھی دماغی ردعمل بہت مضبوط ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نیند کے دوران دماغی ردعمل اسی طرح کا ہوتا ہے جس کا مشاہدہ بیداری کے دوران ہوا، بس ایک چیز کی کمی ہوتی ہے اور وہ ہے توجہ مرکوز کرانے والی لہروں کی سطح کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان نتائج کے اثرات بہت زیادہ ہوں گے کیونکہ اس سے ایک تاریخی معمے کو حل کرنے میں مدد ملی، یعنی بیداری کے مقابلے میں نیند کے دوران ہمارا دماغ ارگرد کے ماحول سے کس حد تک واقف ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مستقبل میں تحقیق کے دوران اس فرق کا باعث بننے والے میکنزمز کی کھوج کریں گے۔

مزید خبریں :