Time 15 جولائی ، 2022
صحت و سائنس

کووڈ 19 کے 23 فیصد مریضوں کو طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوتا ہے، تحقیق

یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی / رائٹرز فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی / رائٹرز فوٹو

کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے 23 فیصد افراد کو اس بیماری سے ریکور ہونے کے بعد بھی طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

خیال رہے کہ ان طویل المعیاد علامات کے لیے لانگ کووڈ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اور متاثرہ افراد کو کئی ماہ تک مختلف طبی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

سدرن کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ لانگ کووڈ عوامی صحت کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے اور 23 فیصد کی شرح بہت زیادہ تصور کی جاسکتی ہے، کیونکہ کووڈ کے مجموعی کیسز کو دیکھا جائے تو عندیہ ملتا ہے کہ کروڑوں افراد کو طویل المعیاد بنیادوں پر مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ سے متاثر ہونے کے وقت موٹاپا اور بالوں کا گرنا لانگ کووڈ کا عندیہ ظاہر کرنے والی علامات ہیں، مگر دیگر طبی مسائل جیسے ذیابیطس یا تمباکو نوشی کا ان طویل المعیاد علامات سے براہ راست تعلق نہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگر کووڈ کے کسی مریض میں علامات کا تسلسل 12 ہفتے یا اس سے زائد عرصے تک برقرار رہے تو اسے لانگ کووڈ قرار دیا جانا چاہیے۔

اس تحقیق کے دوران امریکا بھر کے 8 ہزار افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی جن سے مارچ 2020 سے مارچ 2021 کے دوران سوالات کیے گئے۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ کا سامنا کرنے والے 23 فیصد افراد نے ایسی علامات کو رپورٹ کیا جو 12 ہفتوں سے زیادہ عرصے تک برقرار رہیں۔

مریضوں کی جانب سے جن علامات کو سب سے زیادہ رپورٹ کیا ان میں سردرد (22 فیصد)، ناک بہنا یا بند رہنا (19 فیصد)، پیٹ درد (18 فیصد)، تھکاوٹ (17 فیصد) اور ہیضہ (13 فیصد) قابل ذکر تھے۔

اسی طرح تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ سے متاثر ہونے کے وقت اگر بال گرنے لگے، سردرد کا سامنا ہو یا گلے کی سوجن کی شکایت ہو تو لانگ کووڈ کا خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ لانگ کووڈ اور موٹاپے کے درمیان تعلق کی تصدیق سابقہ تحقیقی رپورٹس میں بھی کی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مگر ہماری تحقیق میں دریافت ہوا کہ ذیابیطس یا دمہ، عمر، جنس یا تمباکو نوشی کا لانگ کووڈ سے کوئی تعلق نہیں۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہوئے۔

مزید خبریں :