22 جولائی ، 2022
ڈپریشن کی بیماری دماغ میں کسی کیمیائی عدم توازن کا نتیجہ نہیں۔
یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
دہائیوں سے مانا جارہا تھا کہ لوگ ڈپریشن کا شکار اس لیے ہوتے ہیں کیونکہ دماغ میں ایک کیمیکل سیروٹونین کا توازن بگڑ جاتا ہے۔
لندن کالج یونیورسٹی کی تحقیق میں ڈپریشن کے حوالے سے ماضی میں ہونے والی تحقیقی رپورٹس اور تمام تر تفصیلات کا تجزیہ کیا گیا۔
اس تحقیقی کام میں ہزاروں افراد میں ڈپریشن اور سیروٹونین سرگرمیوں کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا گیا تھا۔
جرنل مالیکیولر سائیکاٹری میں شائع اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے کوئی واضح شواہد نہیں ملے کہ سیروٹونین کی سطح یا اس کیمیکل کی سرگرمیاں ڈپریشن کا شکار بناتی ہیں۔
سیروٹونین ایسا کیمیکل ہے جو مزاج، نیند، ہاضمے اور دیگر جسمانی افعال کے لیے بہت زیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔
کئی برس سے سیروٹونین کو ڈپریشن کی بنیادی وجہ تصور کیا جارہا تھا اور اسی وجہ سے مریضوں کے لیے سکون آور ادویات تجویز کی جاتی تھیں تاکہ دماغ میں اس کیمیکل کی سطح میں اضافہ ہوسکے۔
محققین نے بتایا کہ نتائج سے سکون آور ادویات کے استعمال کے حوالے سے سوالات ابھرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم اب یہ کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران ہونے والے تحقیقی کام میں ایسے قائل کردینے والے شواہد نہیں ملے کہ دماغ میں کیمیکل کا عدم توازن ڈپریشن کا باعث بنتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بیشتر افراد سکون آور ادویات کا استعمال دماغی کیمیکل کا توازن بگڑنے کے خیال سے کرتے ہیں، مگر نئی تحقیق سے عندیہ ملا ہے کہ اس حوالے سے شواہد موجود نہیں، البتہ یہ ادویات ڈپریشن کی علامات کی شدت میں کمی لاسکتی ہیں مگر وجہ مختلف ہے۔
تحقیق کے دوران سیروٹونین کی سطح کا موازنہ خون یا دماغی سیال میں اس کی سطح سے کیا گیا اور ڈپریشن کے مریضوں یا صحت مند افراد میں کوئی خاص فرق دریافت نہیں ہوسکا۔
اس کے ساتھ ساتھ محققین نے ایسی تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ بھی کیا جن میں متعدد افراد کے جسم میں سیروٹونین کی سطح کو مصنوعی طور پر کم کیا گیا تھا۔
انہوں نے دریافت کیا کہ مصنوعی طور پر سیروٹونین کی سطح کم کرنے سے تحقیق میں شامل رضاکاروں کو ڈپریشن کا سامنا نہیں ہوا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ ڈپریشن کی بیماری اور زندگی کے منفی واقعات کے درمیان تعلق ہونے کاامکان زیادہ ہے۔
تحقیق کے مطابق زندگی کے پرتناؤ واقعات سے لوگوں میں ڈپریشن کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، کسی فرد کو زندگی میں جتنے زیادہ منفی تجربہ ہوگا، ڈپریشن کا خطرہ اتنا زیادہ ہوگا۔