دنیا
Time 03 اگست ، 2022

ایمن الظواہری کے بعد القاعدہ کا نیا سربراہ کون ہوگا؟

اسامہ بن لادن کے ہلاکت کے بعد ایمن الظواہری نے القاعدہ کی ڈی سینٹرلائزیشن میں اہم کردار ادا کیا اور صومالیہ کی دہشتگرد تنظیم الشباب سمیت القاعدہ کے شاخیں پوری دنیا میں ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھیں — فوٹو: فائل
اسامہ بن لادن کے ہلاکت کے بعد ایمن الظواہری نے القاعدہ کی ڈی سینٹرلائزیشن میں اہم کردار ادا کیا اور صومالیہ کی دہشتگرد تنظیم الشباب سمیت القاعدہ کے شاخیں پوری دنیا میں ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھیں — فوٹو: فائل

امریکا کی جانب سے القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کردیا گیا تھا جس کے بعد یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ القاعدہ کا اگلا ممکنہ سربراہ کون ہو سکتا ہے؟

ایمن الظواہری نے 2011 میں القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن کے ہلاکت کے بعد  عالمی دہشتگرد تنظیم القاعدہ کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔

مصری نژاد ایمن الظواہری کبھی بھی اپنے پیش رو اسامہ بن لادن جتنی مقبولیت یا اثر رسوخ حاصل نہیں کر پایا تھا  لیکن اسامہ بن لادن کے ہلاکت کے بعد ایمن الظواہری نے القاعدہ کی ڈی سینٹرلائزیشن میں اہم کردار ادا کیا  اور صومالیہ کی دہشتگرد تنظیم الشباب سمیت القاعدہ کے شاخیں پوری دنیا میں ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھیں۔

ماہرین کے مطابق القاعدہ سربراہ کے ہلاکت کے بعد ایک اہم سوال ابھر کر سامنے آ رہا ہے کہ القاعدہ کا اگلا سربراہ کون ہوگا، اس حوالے سے افغانستان کے معاملات اور القاعدہ پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین نے اپنی آراء کا اظہار کیا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ القاعدہ کے چوٹی کے رہنماؤں میں شامل پراسرار شخصیت کا مالک سابق مصری اسپیشل فورس افسر سیف العادل القاعدہ کے نئے سربراہ کی دوڑ میں شامل ہو سکتا ہے۔

پراسرار شخصیت کا مالک سابق مصری اسپیشل فورس افسر سیف العادل القاعدہ کے نئے سربراہ کی دوڑ میں شامل ہو سکتا ہے — فوٹو: فائل
 پراسرار شخصیت کا مالک سابق مصری اسپیشل فورس افسر سیف العادل القاعدہ کے نئے سربراہ کی دوڑ میں شامل ہو سکتا ہے — فوٹو: فائل

سیف العادل پر امریکا کی جانب سے ایک کروڑ ڈالرز کا انعام رکھا گیا تھا، سیف کو 1981 میں مصری صدر انور سادات کے قتل میں  بھی ملوث قرار دیا جاتا ہے۔

سیف العادل نے 1988 میں مصر سے نکل کر افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد میں شمولیت اختیار کی، اس پر نیروبی میں امریکی سفارتخانوں پر بم حملوں کا بھی الزام ہے اور  سوڈان سمیت پاکستان اور افغانستان میں مجاہدین کے ٹریننگ کیمپ بھی سیف العادل نے ہی قائم کیے تھے۔

سیف العادل کا القاعدہ میں بنیادی کردار بطور ٹرینر رہا  اور وہ اسامہ بن لادن کی سیکیورٹی ٹیم میں بھی شامل رہا  جبکہ القاعدہ میں شمولیت سے قبل وہ مصر کی ایک جہادی تنظیم سے بھی وابسطہ رہا ہے۔

امریکا کی جانب سے سیف العادل کو 2002 میں پاکستان سے اغوا کے بعد قتل کیے گئے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل میں بھی ملوث قرار دیا جاتا ہے اور اسے  ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق القاعدہ کی سربراہی کی دوڑ میں شامل دوسرا ممکنہ شخص یزید مبارک ہو سکتاہے۔

 ابو عبیدہ یوسف النبی کے نام سے معروف یزید مبارک نے 2020 میں القاعدہ اسلامک مغرب کی سربراہی سنبھالی تھی، وہ 1990 کے الجیریا کی سول وار میں بھی شامل رہا، یزید مبارک پر مغربی شہریوں کی اغوا اور مختلف حملوں کے منصوبہ سازی کا الزام ہے۔

اس کے علاوہ ماہرین کا خیال ہے کہ القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری کے بعد اس کی جگہ لینے کے لیے تیسرا امیدوار عبدالرحمان مغربی ہو سکتا ہے۔

موروکو  نژاد عبدالرحمان مغربی، ایمن الظواہری کا داماد اور القاعدہ کا سینیئر کمانڈر ہے، اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد ملنے والی دستاویزات سے معلوم ہوا تھا کہ عبدالرحمان مغربی کو القاعدہ میں ابھرتا ہوا ستارہ  سمجھا جاتا ہے۔

عبدالرحمان المغربی افغانستان اور پاکستان کے لیے القاعدہ کے جنرل منیجر کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔

مزید خبریں :