18 اگست ، 2022
خیبر پختونخوا حکومت کے میگا پروجیکٹ بی آر ٹی پشاور کی آڈٹ رپورٹ میں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
منصوبے میں 47 ارب روپے محکمہ قانون کی منظوری کے بغیر خرچ کیے گئے جبکہ کنٹریکٹر کو خلافِ ضابطہ ادا کردہ 21 کروڑ 13 لاکھ روپے کے کنسلٹنسی چارجز کی وصولی بھی نہیں کی گئی۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق محکمہ قانون سے منظوری کے بغیر 47 ارب روپے سے زیادہ خرچ کیے گئے جبکہ کنسلٹنٹ کو موبلائزیشن ایڈوانس کی مد میں 9 کروڑ 23 لاکھ روپے کی خلاف ضابطہ ادائیگی کی گئی۔
اسی طرح کنٹریکٹر سے خلاف ضابطہ ادا کردہ 21 کروڑ 13 لاکھ روپے کے کنسلٹنسی چارجز بھی واپس نہیں لیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق بی آر ٹی پر کام روکنے کے باوجود پیٹرول کی مد میں 36 لاکھ روپے کی مشکوک ادائیگیاں کی گئیں، بی آرٹی کیلئے ڈبگری گارڈن کے قریب 24 لاکھ روپے مالیت کے 122 قیمتی درخت کاٹے گئے جنھیں 4 لاکھ 20 ہزار روپے میں فروخت کیا گیا۔
بی آر ٹی انتظامیہ نے کنٹریکٹر کو واجبات کی مد میں 31 کروڑ روپے ادا کیے جس کا کوئی ریکارڈ نہیں۔
رپورٹ کے مطابق پی ڈی اے کے ایک ملازم کو خلافِ قانون ری سیٹلمنٹ کنسلٹنٹ کے طور پر رکھا گیا جسے بی آر ٹی اور پی ڈی اے دونوں سے تنخواہ ملتی رہی۔
رپورٹ کے مطابق تعمیراتی کام مکمل کیے بغیر کنٹریکٹر کو 5 کروڑ روپے خلاف ضابطہ دیے گئے، ٹیکسز کی مد میں موصول 7 کروڑ 30 لاکھ روپے بھی قومی خزانے میں جمع نہیں کرائے گئے۔
بی آر ٹی منصوبے سے متعلق متنازع بورڈ کو 60 لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئی، منصوبے میں تاخیر سے 2 کروڑروپے سے زیادہ کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق کورونا اور لاک ڈاؤن کے دوران کام رک جانے کے باوجود کنسلٹنٹس کو 30 کروڑ روپے ادا کیے گئے، اسی طرح بین الاقوامی کنسلٹنٹس کو کنسلٹنٹ اوورہیڈ چارجز کی مد میں بلاجواز 10 کروڑ روپے کی ادائیگی کی گئی۔
اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی فیاض علی شاہ کا کہنا ہے کہ آڈٹ رپورٹ ابتدائی مشاہدات پر مبنی ہے، متعلقہ فورم پر تمام آڈٹ پیرا کا تسلی بخش جواب دیا جائے گا، یہ ابتدائی اعتراضات ہیں جنہیں محکمے کی اکاؤنٹس کمیٹی اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں دور کر دیا جائے گا۔